حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی: بیگو سرائے میں اپنےخانوادوں کے حوالے سے

حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی:

بیگو سرائے میں اپنےخانوادوں کے حوالے سے

از:- عین الحق امینی قاسمی

معہد عائشہ الصدیقہ خاتوپور بیگوسرائے

کہتے ہیں کہ ” دور کا ڈھول سہانا “ ہوتا ہے، یقینا بہت سوں کے لئے اس مقولے میں سچائی ہوگی ، مگر میرے سامنے کئی ایسی عظیم ہستیاں ہیں ،جنہوں نے نزدیک رہ کر بھی اپنوں سے ویسی ہی محبت ،پیار، عظمت ،احترام ،عزت، وقار ،اعتماد اور بھروسہ پایا ہے جو بہت دور سے آنے والوں کو نصیب ہواکرتا ہے،انہیں باکرداروں اور عظیم المرتبت شخصیتوں میں ایک ممتاز نام مولانا سید ابو اختر قاسمی رحمہ اللہ کا بھی تھا ،جنہیں اگرچہ رسمی فراغت کے بعد بہت تھوڑا وقت ملا گاوں والوں کے ساتھ رہنے سہنے کا ،مگر اس سے پہلے بچپن کی جو چھاپ رہی ،اس کا اثر پچپن کے بعد بھی ،بلکہ آج تک ان کے ہم عصروں کے درمیان قائم رہا ، اُن کے گاوں کے ہی معاصرین کی روایت کو مانیں تو ابھی تک اگر وہ اپنی علمی موشگافیوں سے عوام وخواص میں معتبر و بزلہ سنج اور ” لاکھوں میں انتخاب کے قابل “سمجھے جاتے رہے، تو وہ اپنی تیزئی طبع ، فکری افتاد اور” ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ” کی وجہ سے ۔کھیت کی پکڈنڈی ہو یا گاو ں کی کبڈی اور یا اپنے گھر کے سامنے مکتب کی دہلیز پر بیٹھ کر سلیٹ پنسل ا ور قاعدہ بغدادی میں جید الاستعداد معاصرین کے درمیان عالمی مقابلہ ،وہ سب میں بازی مار جاتے تھے۔اُن کے والد مرحوم مولانا سید رضی الدین صاحب( جو گاوں سے کچھ ہی فاصلہ پر بیہٹ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہوگئے تھے ) کی وجہ سے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والد صاحب کی نگرانی میں ہورہی تھی ، اس لئے گاوں میں ساتھیوں کے لئے بھی وقت نکل جایا کرتا تھا اور کسی بھی اُتپات میں کمال یہ تھا کہ کبھی اُن کا نام ظاہر نہیں ہوتا تھا ،شاید ساتھیوں کو بھی اُن کے روشن مستقبل کے حوالے سے کشف ہو تارہا ہو۔گاو ں سے بنگلہ دیش تک کے تعلیمی سفر میں ساتھ رہنے والے ہم عصر ، خوش مزاج ، جری ،نڈر،بے باک اور حاضر جواب، جناب عین الحق عرف خان صاحب بتاتے ہیں کہ ” ہم آج بھی ان کو اختر بھائی ہی کہہ کر پکارتے رہے ،اگر چہ وہ بڑے عالم ہوگئے اور میں شیطان۔ حضرت مولانا عبد الاحد صاحب رحمة اللہ علیہ کی وجہ سے میں اُن کی دل سے تعلیمی دور میں بھی قدر کرتا تھا (جوانی تھوڑی گڑ بڑ رہی ) اورآج جب بوڑھا ہوگیا ہوں، اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا، گھٹنوں کے درد سے پریشان ہوں ، تب بھی احترام کرتارہا اور سچ پوچھئے تو احترام وقدردانی کی اصل یہی عمر ہے ،جہاں انسان لاچار ومجبور ہے ۔
مولانا کا آبائی گاو ں "پپرور” ہے جوبیگوسراے شہر سے جانب مغرب کوئی 10/ 12/ کیلو میٹر،جب کہ برونی جنکشن سے جانب مشرق 6/ کیلو میٹر فاصلے پر این ایچ 31/ سے دکھن کی جانب واقع ہے ، وہاں سے آزادی کے بعد سب سے پہلے بننے والا "راجندر پل ” جوباڑھ ،بختیار پور اور فتوحہ اورپٹنہ کوجوڑتا ہے وہ بھی بمشکل 10/8 کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے،سینٹرل گورمنٹ کی برونی ریفائنری اس بستی سے بالکل قریب ہے ،بلکہ فٹیلا ئزر کا ایک دروازہ اسی بستی میں کھلتا ہے ،جس سے فٹیلائزر کے احاطے میں بنی مسجد یہاں کے مصلیوں سے آباد رہتی ہے ، یہاں کے لوگ پڑھے لکھے شروع سے رہے ہیں ،حال کے دنوں میں جب سے نئی نسل کی غیر ممالک سے آمد و رفت شروع ہوئی ہے یا کچھ ٹھیکیداری وغیرہ کا سلسلہ ہوا ہے ،تب سے معاشی پوزیشن مزید بہتر ہونے لگی ہے ،آبادی کی خوشحالی اُن کے پہناوے اڑھاوے سے جہاں جھلکتی ہے، وہیں طرز تعمیر میں ایک سے بڑھ کر ایک پختہ عمارتوں سے بھی اس کی خوب خوب رونمائی ہوتی ہے، مولانا کا مکان کل بھی مسجد کے بالکل برابر میں شمال کی طرف تھا ،آج بھی بھتیجوں اور ان کے بچوں نے وہیں پر عالی شان عمارت تعمیر کر مسجد کے گرد رونق میں اضافہ کیا ہوا ہے ، زیر تذکرہ بستی کثیر الخیال ،ملی جلی کثیر گھنی آبادی پر مشتمل بڑی بستی ہے ، وجہ تسمیہ کے سلسلے میں کئی پرانے قسم کے لوگوں سے معلوم کرنے پر بھی حقیقت سامنے نہیں آسکی۔گاوں میں داخل ہوکر خاص کر مسلم آبادی میں پہنچ کر کافی چہل پہل دِکھتی ہے ،گاو ں کی جامع مسجد کو صرف گاو ں کے تعاون سے وسیع وعریض سطح پر دومنزلہ تعمیر کی گئی ہے ،اسی سے متصل جانب جنوب میں مدرسے کی لق و دق جدید عمارت تعمیر ہوئی ہے ،اُسی کے عقب میں ایک بڑا سا تالاب ہے ،ٹھیک اس کے آگے پورب دکھن کر کے 52/ بیگھے کا قبرستان ہے ،جسے پاس پڑوس کے زیادہ ترمسلمانوں نے ہی دبا کرچھوٹا کردیا ہے ،اب اُس کا جتنا حصہ بھی بچا ہے ،اسے شعور مند لوگوں نے چہار دیواری کے ذریعے قبرستان کے احاطے میں لے لیا ہے، پپرور سادات کی بستی کی نسبت سے علاقے میں جاناجاتا ہے ،مگر یہاں مختلف مذاہب وبرادری کے لوگ بستے ہیں ،یہاں کی جو آبادی سادات پر مشتمل ہے ،وہ برچسپ مانی جاتی رہی ہے ،اُن کی شادی بیاہ زیادہ تربیگوسرائے کے سید پور ،گودر گاواں ،قصبہ ،کاری چک ،حسن پور وغیرہ جیسی چند گنے چنے بستیوں میں ہوا کرتی تھی ،مگراب اس کا دائرہ آگے بھی بڑھا ہے ۔
مولانا کے دادا سید نوازش علی تھے ،ان کے تین لڑ کے مولانا سید رضی الدین ،سیدوضی الدین اور سید غیاث الدین۔مولانا کے والد مولانا سید رضی الدین صاحب مرحوم کے آٹھ لڑکے ہوئے ،مولوی سید ابو فضل ،سیدابوبکر ،سیدا بوعمر، سید ابو اختر، سید ابو اصغر ،سید ابو مظاہر ،سید ا و محاسن اور سید ابو اکبر ،جب کہ تین لڑکیاں ہیں ،سیدہ رابعہ خاتون ،سیدہ عابدہ خاتون اور سیدہ ماجدہ خاتون۔بڑی بچی کی شادی گاوں میں ہی قاری محمود الحسن کے لڑکے سید نجم الحسن سے ہوئی تھی ،دوسری کی شادی حسن پور میں ہوئی اور تیسری کی شادی سانہہ میں سید محمدعباس صاحب سے ہوئی تھی ،مگر بعد میں وہ بھی یہیں پپرور میں ہی بس گئے ،ان سے سید اختیار عالم وغیرہ ہیں جو ماشاءاللہ دین داری اور دین کے لئے ہر طرح کی قربانی کے جذبے سے جیتے ہیں ،سماجی اور تنظیمی کاموں میں پیش پیش رہ کر انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین مانتے ہیں۔
رشتے میں راقم الحروف کی ہمشیرہ والدہ سیدفروغ الرحمٰن عرف سجن بتا تی ہیں کہ ہند وستان کے مایہ ناز عالم دین حضرت مولانا عبد الاحد صاحب مولانا ابو اختر صاحب کے استاذ بھی تھے ،ماموں بھی اور سسر بھی تھے۔مولانا عبد الاحد صاحب نے اپنی بیٹی” کنیز فاطمہ "سے جب رشتہ کردیا وہ تو قصبہ آگئیں ،وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں ہیں ،مگر بڑے باپ کی بیٹی ہونے کے ناطے آج بھی اثر ورسوخ ،بلندخیالی اور فکر وتدبر میں سچ مچ استانی جی ہیں۔پوری بستی میں مولانا مدظلہ کی والدہ بھی استانی صاحبہ سے ہی مشہور تھیں اور بعد میں پھر مولانا کی اہلیہ بھی سرکاری ٹیچر ہوگئیں تووہ آج بھی خواتین میں پوری بستی کے لیے ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہیں ،حسن اخلاق ،گفتگو کا معیار ،رکھ رکھاؤ ، بچوں کی تعلیم و تربیت ،شادی بیاہ ،بیٹیوں کا آنا جانا ،ٹولہ محلہ سے ربط وضبط، سب کچھ ماشاءاللہ دیکھ رہی ہیں، صوم وصلٰوة کی پابند ہیں ،آج بھی وہ اپنے پنشن سے اپنی ضرورت خود پوری کرتی ہیں ،یہاں پوتا پوتی ،ناتی نتنی سے بھرا پُرا گھر ہے اِن بچوں کونانا ،دادا کاپیاربھی ا،نہیں استانی صاحبہ سے ملتا ہے ۔
قصبہ مولانا کی پہلی شادی ہوئی ،ان سے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔لڑکوں میں بالتر تیب سید ابو نصر ،سید ابو بصر،سید ابو نظر اور سید ابو اثر،جب کہ بیٹیوں میں ناظمہ تبسم ،جبینہ خاتون اور مکینہ خاتون ہیں۔مولانانے اپنے بڑے لڑکے کی شادی گاوں میں ہی کی ،دوسرے کی شادی بھی پپرور ہی میں ہوئی، مگر پوری فیملی جگدیش پور لکھنو منتقل ہوگئی ہے ،تیسرے لڑکے ابو نظر کی شادی سعد پور میں ہوئی ، جب کہ چوتھے ابو اثر کی شادی کھرنیاں ضلع کھگڑیا میں ہوئی ہے ،اُن کا رہنا سہنا بھی زیادہ تر لکھنو میں ہی ہوتا ہے۔اسی طرح بڑی بچی ناظمہ کی شادی سید عباس صاحب کے صاحب زادے سید امتیاز عالم سے ہوئی ،دوسری بچی جبینہ کی شادی معصوم میاں سے ہوئی اور تیسری مکینہ خاتون کی شادی اقبال صاحب سے ہوئی ہے۔پہلے محل سے ساتوں بچوں کی شادی بیاہ سے مولانا پار گھاٹ لگ چکے تھے اور سبھی الحمد للہ اپنے بچو ں کے ساتھ خوش وخرم ہیں ،سب کے سب صاحب اولا د ہیں ، مولانا کی اولادوں میں عام وخاص تمام مہمانوں کی ضیافت بڑھ چڑھ کرکرنے کا عمومی مزاج ہے ،کوئی مسافر ،سائل یا مدرسے کے مبلغ ہوں ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا اِن سب بچوں کی خاص عادت ہے سب سے چھوٹے لڑکے اثرو بہت ہنس مکھ ،خوش اخلاق قابل شخص ہیں ،کچھ دنوں قبل راقم الحروف کے مکان پر اپنے دوست سید محمد فروغ الرحمان عرف سجن( جو میرے نسبتی بھائی ہیں ) کے ساتھ تشریف لائے تھے اور کافی دیر تک اس عاجز کے ساتھ گفت وشنید ہوتی رہی۔
مولانا ابو اختر صاحب قاسمی کے تعلق سے حافظ وقاری ابوالخیر صاحب امام جامع مسجد پپرور (جو قاری عبد الحمید صاحب مرحوم کے صاحب زادہ ہیں اورمولانا ابواختر صاحب کے قریبی رشتہ دار اور کم وبیش ہم عمر ہیں ، گزشتہ 35/ برس سے وہ یہاں پپرور میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ،خوش اخلاق ملنسار ہیں ،تواضع وسادگی انگ انگ میں بسی ہے ،مولانا کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے ) وہ بتاتے ہیں کہ جب مولانا مونگیر جامعہ رحمانی سے واپس آگئے ،طبعی طور پر غیرت مند ہونے اور حق پر حکمت ومصلحت کا پردہ نہ ڈالنے والے مزاج کی وجہ سے کہیں کسی مدرسے میں قیام مشکل ہورہا تھا ، تب انہوں نے بزنس کے ارادے سے اپنی ایک دکان ڈال دی اور اس کے ذریعے سے اپنا خرچہ پورا کرتے رہے، مگر اپنے علم وفکر اور بنیادی صلاحیتوں سے حق کی دعوت اور اصلاحی گفتگو کا سلسلہ کبھی بھی بند نہیں کیا معاملاتی اعتبار سے کبھی کسی سے ان کی لے دے نہیں ہوئی ،وہ اپنے مزاج وانداز سے سب کا دلدادہ بن کر رہے۔
پپرور کے معتمد عالم دین مفتی محمد ثناءاللہ قاسمی، مولاناکے تعلق سے علاقائی اصلاحی پروگرامس کے سلسلے میں اپنے والد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ” پرانے لوگ آج بھی ان کے نام پر مرمٹ ہیں ،بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد مجھے کھانے میں جلدی کرنے پر مصر تھے تو میں نے وجہ معلوم کی تووہ بڑی عظمت کے ساتھ بولے کہ فلاں کے یہاں میلاد ہے ، مولانا ابواختر صاحب میلاد پڑھیں گے جلدی کرو ان کی تقریر چھوٹ جائے گی ۔انہوں نے ہی بتلایا کہ مولانا یہیں گاو ¿ں میں کسی کے نکاح میں تشریف لائے تھے،نکاح سے قبل کچھ کہنے کی درخواست اُن سے کی گئی ،جب مولانا ابو اختر صاحب نے بولنا شروع کیا تو سارے لوگ ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہونے لگے شادیوں میں ہونے والے رسم ورواج پر اُن کی گفتگو ہورہی تھی ،اخیر میں انہوں نے جب سیرت رسول ﷺ کا حوالہ دیا اور اس کی روشنی میں بولنے لگے تو میں نے دیکھا کہ اُنہیں ہنسنے والوں کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں ۔
علاقے بھر میں نئی نسل ان سے قطعاً واقف نہیں ہے، البتہ پرانے لوگ مولا نا کواچھی طرح جانتے ضرور ہیں ،مگر جی بھر کر دیکھنے اور برتنے کا اُنہیں بھی موقع نہ مل سکا،لیکن جتنے لوگوں نے انہیں دیکھا اور سنا ہے وہ سب ان کے گرویدہ ہیں ۔ ان کے ہم عصروں میں جناب مجتبیٰ صاحب مرحوم بجلی ڈپارٹ میں سرکاری عہدے پر تھے ،گویا یار غار تھے ۔مقامی احباب کا بیان ہے کہ اتنی صلاحیت کے مالک ہونے کے باوجود جب بھی انہیں میلاد تک کے لئے دعوت دی جاتی تھی، وہ اس کو نہ صرف قبول کرتے ،بلکہ وقت پر تشریف لا کر گھنٹوں علاقائی اور معاشرتی مسائل اور سماجی منکرات وغیرہ کے موضوع پر گفتگو فرماتے رہتے،مگر کیا مجال کے لوگوں میں اکتاہٹ یا سستی کا احساس ہو ،اُن میں بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے سامعین کو ہمیشہ بیدار رکھ کر سننے کا عادی بنا کر جوڑے رکھتے تھے اور جب بھی دعوت دی جاتی وہ مخلصانہ اور ہوائی چپل میں ہی عام لوگوں کی طرح خرامہ خرامہ چلے آتے، نہ کوئی فیس کا مطالبہ ،نہ نظرانہ کی طلب،نہ غیر مرتب پروگرا م کرنے پر صاحب خانہ کوڈانٹ ڈپٹ اور نا ہی میزبان کو شرمندہ کرنے یا آئندہ کبھی ان کے کسی پروگرام میں نہ آنے کی دھمکی، مقامی شناساو ں کا احساس یہ ہے کہ آج بھی جب مولانا کے تعلق سے مسجد میں یا مسجد سے باہر چائے کی دکانوں پراور چھوٹے بڑے جلسوں میں کوئی بات چھرجاتی ہے تو لوگ اُن کی قابلیت ،سادگی ،تواضع ،بے نفسی اور ان کی ہجرت کو یاد کرتے ہوئے زبان حال وقال سے یہ ضرورکہتے ہیں کہ :

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں مسلسل رہا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدانما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کے لے سے سیکڑوں لذت شناس ہیں
اس گیت کے تمام محاسن ہیں لا زوال
اس کا وفور اس کا خروش اس کا سوز و ساز
یہ گیت مثل شعلہ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے باد فنا کا جگر گداز
جیسے چراغ وحشت صرصر سے بے خطر
یا شمع بزم صبح کی آمد

دعا ہے کہ حق مغفرت کرے

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔