از:- محمد نصر الله ندوی
مولانا نذیر احمد ندوی استاذ دار العلوم ندوة العلماء کی ناگہانی موت نے ذہن ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،دل یہ یقین کرنے کو کسی طرح تیار نہیں کہ مولانا ہمارے درمیان سے اچانک اٹھ گئے اور وہاں چلے گئے ،جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا،یہ دنیا فانی ہے اور جان سب کی جانی ہے،لیکن کچھ جانے والے ایسے ہوتے ہیں جن کی زندگی کے روشن اوراق نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں اور جن کی یادوں کے نقوش ذہن ودماغ سے کبھی محو نہیں ہوتے۔
مولانا کی تعلیم وتربیت ندوة العلماء کی آغوش میں ہوئی ،اور فراغت کے بعد انہوں نے اسی کو اپنی علمی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنایا اور اس طرح عہد وفا نبھایا کہ ،آخری سانس بھی ندوہ کے نام کردیا،مولانا ادھر مسلسل بیمار رہتے ،لیکن کسے خبر تھی کہ موت کا فرشتہ اتنی جلدی پروانہ اجل لیکر آجائے گا،اور یوں وہ ہم سب سے جدا ہو جائیں گے،لیکن تقدیر کے قاضی کا فیصلہ ٹالا نہیں جاسکتا،اس کا ایک طے شدہ وقت ہے،جس کا علم کسی کو نہیں ہے۔
مولانا کی پوری زندی تعلیم وتعلم سے عبارت تھی،ان کا ہر لمحہ علم کی نشر واشاعت کیلئے تھا،عمر بھر وہ معرفت و آگہی کا چراغ روشن کرتے رہے اور اسی حال میں اپنے رب کے حضور پہنچ گئے،ان کی موت علم کے راستہ میں ہوئی ہے،اس لئے یقینا یہ شہادت کی موت ہے،راہ علم کا یہ مسافر اپنی منزل سے ہمکنار ہوگیا اور اپنی کوششوں کا صلہ پانے کیلئے اپنے خالق ومالک کے پاس پہنچ گیا۔
عربی ادب ندوة العلماء کا طرہ امتیاز ہے،مولانا اس کی زندہ مثال تھے،وہ عربی زبان وادب کے ماہر فن استاذ تھے،ماہر لسانیات تھے،عربی کے علاوہ اردو،ہندی ،انگریزی اور فارسی زبان پر ان کو قدرت حاصل تھی،وہ بہترین ترجمہ نگار تھے،ان کے قلم میں سلاست اور روانی تھی،ان کی تحریروں میں شگفتگی اور دل آویزی تھی،جب وہ لکھتے تو ادب کے شہ پارے بکھیرتے ،جب درس دیتے تو فصاحت وبلاغت کے پھول کھلاتے،جب گفتگو کرتے تو علم کے موتی رولتے،جب خطاب کرتے تو معلومات کا چشمہ بہاتے،جب مخاطب ہوتے تو تہذیب وشائسگتی کا نمونہ پیش کرتے،جب نصیحت کرتے تو حکمت ودانائی کے لعل وگہر لٹاتے،وہ ایک عظیم مربی تھے،جس کی تربیت نے کتنوں کی زندگیاں بدل دیں،وہ ایک مشفق استاذ تھے،جس کے درس سے علم کا خزانہ ہاتھ آتا تھا،وہ ایک بہترین ادیب اور قلم کار تھے،جن کی تحریریں اسلامی صحافت کی آئینہ دار ہوتی تھی،جن کی تربیت نے عربی کے کتنے قلمکار پیدا کئے،کتنوں نے ترجمہ اور انشاء پردازی کے رموز سیکھے اورانگریزی اور ہندی میں مہارت حاصل کی،وہ ایک خاموش معلم تھے،جنہوں نے بغیر کسی ہنگامہ اور نام ونمود کے نسلوں کی تربیت کی،وہ شہرت وناموری کے فن سے ناآشنا تھے،ملنے ملانے اور خود کو نمایاں کرنے کے آداب سے ناواقف تھے،اسی لئے اس مقام تک نہیں پہنچ سکے ،جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔
وہ ایک عظیم انسان تھے،تواضع وعاجزی کا پیکر تھے،ان سے مل کر دل کو سکون حاصل ہوتا تھا،ان کو دیکھ کر آنکھوں کو قرار آتا تھا،ان کے سینہ میں اخلاص کا چراغ جلتا تھا،ان کی چال میں متانت تھی،ان کی گفتگو میں وقار تھا،انہوں نے اپنی ذات سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا،ان کا دل حسد اور ریاکاری سے پاک تھا،نصح وخیر خواہی ان کی فطرت میں شامل تھی،وہ صرف اپنے کام سے کام رکھتے ،لایعنی اور فضول چیزوں سے دور رہتے،وقت کا صحیح استعمال کرتے ،الغرض وہ ایک مثالی استاذ تھے،جس سے آج دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔