از:-: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
قربانی! محض ایک مذہبی رسم یا خونریزی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا جامع عمل ہے جو روح کو جلا دیتا ہے، سماج کو جوڑ دیتا ہے، معیشت کو تقویت دیتا ہے اور شریعت کے مقاصد کو پورا کرتا ہے، یوں تو دنیا کے بیشتر مذاہب میں نذر ونیاز کا تصور پایا جاتا ہے، لیکن اسلام میں قربانی کو جو مقام ومنزلت حاصل ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ قربانی خالص عبادت کا درجہ رکھتی ہے، آج کے جدید، سوشل میڈیا زدہ دنیا میں جہاں ہر چیز کو ROI یعنی Return on Investment کے ترازو میں تولا جاتا ہے، قربانی کے مفہوم کو بھی کچھ لوگ ازسرِنو جانچنے لگے ہیں، اور اسے عقل کے میزان میں تولنے لگے ہیں، جب کہ یہ عشق ومحبت کا مظہر ہے، قربانی فقط ذبح کا نام نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ} (الحج: 37) (اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون، بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے)، یہ آیت وہ بنیادی تمہید فراہم کرتی ہے جو ہمیں سمجھاتی ہے کہ قربانی دراصل ایک علامت ہے — اندرونی خلوص، جذب دروں، اطاعتِ خداوندی اور اجتماعی شعور کے اظہار کی، گویا خون کی بو نہیں، خلوص کی خوشبو مطلوب ہے۔
لیکن اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ محض باطنی پہلو پر قناعت نہیں کرتا، وہ ہر عمل کو ایسے ڈھانچے میں ڈھالتا ہے جس سے فرد بھی نفع پائے، اور سماج بھی سنورے؛ لہٰذا قربانی کا یہ خالص روحانی عمل، اپنی ظاہری صورت میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے، اسلامی فقہ کے ماہرین جب "مقاصد شریعت” پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ پانچ بڑے مقاصد کا ذکر کرتے ہیں:
1. حفظ الدین (دین کا تحفظ)
2. حفظ النفس (جان کا تحفظ)
3. حفظ المال (مال کا تحفظ)
4. حفظ العقل (عقل کا تحفظ)
5. حفظ النسل (نسل کا تحفظ)
دلچسپ امر یہ ہے کہ قربانی بیک وقت کم از کم تین اہم مقاصد کو براہِ راست پورا کرتی ہے:
دین کا تحفظ: قربانی شعائرِ اسلام میں سے ہے، اس کا احیاء دین کے علانیہ اظہار کی صورت ہے، خصوصاً ہندوستان جیسے تنوع سے بھرپور ملک میں۔
مال کا تحفظ اور اس کا تزکیہ: مال سے جانور خریدا جاتا ہے، یعنی مال خرچ ہوتا ہے، مگر اس سے نفس کی تطہیر، غربا کی امداد، گوشت کی فراہمی اور معیشت کا ایک مکمل نظام بنتا ہے، گویا مال کا صرف خرچ نہیں، circulate ہونا، flow میں آنا — یہی اسلامی معاشیات کی روح ہے۔
نفس کی تطہیر: انسان جب جانور کے سامنے چھری چلاتا ہے تو دراصل اپنی انا، بخل، اور غفلت پر چھری چلاتا ہے، گویا قربانی نفس کا مجاہدہ ہے، جو مادی بھی ہے اور معنوی بھی، اور انسان کی جان جانور کی قربانی کے عوض محفوظ کردی گئی، یہ اس کا شکرانہ ہے۔
بعض روشن خیال طبقے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قربانی میں صرف جانور ضائع ہوتا ہے، ماحول خراب ہوتا ہے اور صرف خون بہتا ہے، اس سے غربت نہیں مٹتی، جب کہ یہی لوگ افطار پارٹی میں ہزاروں اڑاتے ہیں، اور خالص دنیا داری میں تو کروڑوں، یہاں عبدیت کا امتحان ہے، جس سے عقلیت پرستی مانع ہوتی ہے، غور کریں تو قربانی خالص عبادت ہونے کے ساتھ ایک نفع بخش معاہدہ ہے — خدا کے ساتھ بھی، سماج کے ساتھ بھی، اور اپنی ذات کے ساتھ بھی۔
قربانی کی معاشی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کو عبادت کے ساتھ ہی ایک معاشی سرگرمی (economic activity) کے طور پر بھی دیکھیں، یہ محض ایک دن یا تین دن کا عمل نہیں بلکہ ہفتوں پہلے سے معاشی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں اور ہفتوں بعد تک جاری رہتی ہیں، جس کے کئی پہلو ہیں:
-
1. جانوروں کی خرید وفروخت:
دیہی کسان مہینوں پہلے جانور پالتے ہیں، ویشی منڈیاں سجتی ہیں، جن میں نقل وحمل، چارہ، خیمے، مزدور سب جُڑ جاتے ہیں، لاکھوں کروڑوں روپے کا لین دین ہوتا ہے، جو دیہی معیشت میں نئی جان ڈالتا ہے۔
-
2. قصاب اور مزدور طبقہ:
عید الاضحیٰ کے دنوں میں قصاب سب سے مصروف اور ‘بزنس کلاس’ کے مسافر بن جاتے ہیں، مزدور، صفائی والے، گوشت بنانے والے، سپلائی چین میں ہر کوئی شامل ہو جاتا ہے۔
-
3. چمڑے کی صنعت:
کھال جمع کرنے والے NGO یا تاجر، تنی ہوئی رسیوں کے ساتھ ہر گلی میں حاضر ہوتے ہیں، بھارت میں چمڑا ایک بڑی صنعت ہے، جو لاکھوں ہنر مندوں کو روزگار دیتی ہے — مسلمانوں، دلتوں، اور دیگر کمزور طبقات کو، جوتے، بیلٹ، بیگ، فائل کور، حتی کہ گاڑی کے سیٹ کور وغیرہ اسی چمڑے سے تیار ہوتے ہیں، افسوس کہ مسلمانوں کی اس نفع بخش تجارت پر شب خوں مار دیا گیا۔
-
4. خواتین کی گھریلو معیشت:
کلیجہ، پائے، مغز، گوشت محفوظ کرنا، اچار بنانا — یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو گھریلو خواتین کی دستکاری اور پکوان کو بڑھاتی ہیں، گھر گھر گوشت تقسیم ہوتا ہے، مہمان آتے ہیں، خواتین کی باورچی خانہ کی معیشت سرگرم ہو جاتی ہے، اور لا تعداد لوگوں کو قربانی کے دنوں میں اور بعد تک مفت کھانا نصیب ہوتا ہے۔
-
5. گوشت کی معیشت:
گوشت بیچنے والے، فرج اور ڈیپ فریزر بنانے والی کمپنیاں، برف والے، مصالحہ فروش، یہاں تک کہ باربی کیو چارکول والے بھی مستفید ہوتے ہیں۔
-
6. شہری و دیہی روابط:
شہر والے دیہات سے جانور منگواتے ہیں، یا وہاں جا کر خریداری کرتے ہیں، دیہی علاقوں میں نقدی آتی ہے، جس سے مقامی بازاروں میں جان آتی ہے، افسوس کہ گاؤ رکھشکوں نے بیڑا غرق کر رکھا ہے، ایک جانور کی محبت میں مسلمانوں ہر ہجومی حملے کرتے ہیں اور ملک کی معیشت کی بھی کمر توڑتے ہیں:
بایں عقل ودانش بباید گریست
-
7. زکوٰۃ و صدقات کی تکمیلی صورت:
قربانی کے گوشت سے وہ لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں جنہیں عام حالات میں گوشت نصیب نہیں ہوتا، اور زکوۃ وصدقات کے مقاصد یعنی غریبوں کی حاجت براری کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔
-
8. ماحول اور صفائی:
اگر بلدیاتی ادارے اپنی ذمہ داری نبھائیں تو یہ موقع صفائی، ماحولیات اور مشترکہ خدمت کا بہترین ماڈل بن سکتا ہے۔
قربانی کا تصور یہاں ہندو بھائیوں کو بھی جانوروں کی افادیت کے نئے رخ سے روشناس کراتا ہے، سیاسی رکاوٹوں، میڈیا کے پروپیگنڈے، اور سماجی دباؤ کے باوجود مسلمان قربانی کرتے ہیں — یہ مذہبی آزادی کا ایک عملی اظہار ہوتا ہے، مسلمانوں کی معاشی شرکت اور احترامِ قانون کے ساتھ قربانی ہندوستانی جمہوریت کا ایک خوبصورت نمونہ بن سکتی ہے، اگر قربانی کے جانور پہلے سے پالے جائیں، قدرتی چارے پر رکھے جائیں، اور صفائی کے اصول اپنائے جائیں تو یہ ایک ماحول دوست environment friendly عمل بن سکتا ہے، گوشت کا بقیہ حصہ compost میں تبدیل ہو سکتا ہے، ہڈیاں کھاد یا جانوروں کی خوراک میں استعمال ہو سکتی ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قربانی صرف ایک ذبح کا عمل نہیں، یہ ایک جامع، ہمہ گیر، بہبود پر مبنی نظامِ خیر ہے، یہ مال کی طہارت ہے، نفس کی تربیت ہے، سماج کی تنظیم ہے، اور معیشت کی توانائی کا ذریعہ ہے، یہ شعور کی بیداری ہے، خلوص کا اظہار ہے، اور مقاصدِ شریعت کا عملی مظہر ہے۔
ویسے بھی انسانی فطرت اور جبلّت کے اہم تقاضوں میں غذا بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اور گوشت خوری اس غذا کا ایک فطری، تاریخی اور ثقافتی عنصر ہے، مختلف مذاہب نے اسے کبھی عبادت کا ذریعہ بنایا، کبھی روحانی مجاہدہ کا موقع، اور کبھی اخلاقی آزمائش کا میدان، اسلام میں گوشت خوری کو نہ صرف مباح قرار دیا گیا ہے بلکہ قربانی، ذبیحہ اور حلال کے اصولوں کے ذریعے اسے تزکیہ نفس، اطاعتِ رب، اور سماجی خیرات سے جوڑ دیا گیا ہے، یوں گوشت خوری محض ایک حیوانی عمل نہیں، بلکہ ایک اخلاقی و روحانی تجربہ بن جاتا ہے، جو غربت کے خلاف ایک علامتی مزاحمت بھی ہے، اور نفس پر غلبے کا مظہر بھی، ہم دیگر مذاہبِ کی بات کریں تو یہودیت میں گوشت خوری کا تصور اگرچہ موجود ہے، مگر اسے سخت شرعی قوانین (کوشر) کے تحت منضبط کیا گیا ہے، یہودی صرف ان جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں جو مخصوص صفات کے حامل ہوں، اور جنہیں ایک ماہر ذبیحہ کار شرعی طریقے سے ذبح کرے، خون کا مکمل اخراج ضروری ہے، اور گوشت و دودھ کو کبھی ایک ساتھ نہیں کھایا جا سکتا، کوشر گوشت صرف غذائی عنصر نہیں، بلکہ یہودی تہذیب، عبادت اور طرزِ حیات کا ایک اہم جزو ہے، خاص ایام اور تہواروں میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، جیسے عید الفصح کے مواقع پر، جہاں گوشت خوری مخصوص شرائط کے تحت انجام دی جاتی ہے، یہ عمل بھی یہود کے مذہبی قوانین خور ونوش "کشروت” کے تابع ہے، وہ کھانے جو ہلاخاہ (تحریری اور زبانی توریت پر مشتمل یہودی قوانین کے مجموعہ) کے مطابق حلال ہیں انھیں کوشر کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف، مسیحیت میں گوشت خوری کی عمومی اجازت پائی جاتی ہے، البتہ کیتھولک عیسائی "لینٹ” جیسے روحانی ایام میں اس سے پرہیز کرتے ہیں، گویا روحانی ریاضت کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، ہندو مت میں معاملہ تہذیبی وزمانی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتا رہا— ویدک دور میں یگیہ کی قربانیوں میں گوشت کا استعمال عام تھا، ہندو مت میں پانچ عظیم قربانیاں، جنہیں پنج مہا یگیہ کہا جاتا ہے، زندگی کے مختلف شعبوں میں فرض کی ادائیگی اور روحانی پاکیزگی کا مظہر ہیں، بھووت یگیہ تمام جانداروں—جانوروں اور پرندوں—کے ساتھ شفقت کا اظہار ہے، جب کہ پتھری یگیہ آبا واجداد کی روحوں کے لیے خراج عقیدت ہے، دیو یگیہ دیوتاؤں کے حضور عقیدت کے اظہار کا ذریعہ ہے، جس میں ویدک منتر اور آہوتی شامل ہوتی ہے، برہم یگیہ علم کی بقا، ویدوں کی تعلیم و تدریس اور روحانی پاکیزگی کا مظہر ہے، اور اتھی یگیہ مہمان نوازی، دردمندی اور انسان دوستی کی اعلیٰ مثال ہے، یہ تمام یگیہ ہندو عقیدے میں کائناتی توازن، اخلاقی ذمہ داری اور روحانی ارتقاء کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔
مگر بدھ مت وجین مت کے اثر سے "اہنسا” کا تصور عام ہوا اور اس نے سب کچھ بدل دیا، یہاں تک کہ گائے کے ذبیحہ کو قومی و مذہبی تقدیس کا عنوان بنا دیا گیا، آج ہندوستانی تناظر میں یہ اختلاف مذہبی آزادی، ثقافتی کشمکش اور سماجی ہم آہنگی کا حساس سوال بن چکا ہے، جہاں گوشت خوری صرف غذا نہیں، ایک نظریاتی بیانیہ اور تشخص کی علامت بن چکی ہے؛ اس لیے مذاہبِ عالم میں گوشت خوری کو صرف جسمانی تغذیہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی، روحانی اور تمدنی علامت کے طور پر سمجھنا زیادہ مناسب ہوگا، اور اسی اعتبار سے قربانی کی اسلامی روح سے برادران وطن کو واقف کرانے کے ساتھ ہی قربانی کے عمل میں احتیاط کے تمام تر تقاضوں کی رعایت کرنا حکمت ودانش مندی کی بات ہوگی۔