رجب طیب اردگان: شخصیت اور پالیسی

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری

طیب اردگان اب اپنوں کے نشانے پر ہیں، ایک رائے میں وہ منافق ہیں، دوسری تحقیق ان کو یہودی ایجنٹ طے کرتی ہے، جذباتی فکر کے نزدیک وہ غزہ میں بے نقاب ہو گئے ہیں، اسرائیل پر راست حملہ اردگان پر فرض عین تھا، وہ ان الحکم الا للہ کی دفعہ میں آگئے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح ان کو بھی تجدید ایمان کا مطالبہ درپیش ہے۔

مذکورہ ذہن نے طالبان کو بعینہ قضیے میں معذور مانا ہوا ہے؛ جب کہ اردگان کے امکانات بھی محدود ہیں، نام نہاد مفکرین پوری طرح ایجنٹ پروپیگنڈے کے نرغے میں ہیں، یہ لوگ "بہی خواہانِ یہود” کے دفاع میں اردگان کا سہارا لیتے ہیں، غزہ قتل عام کے بالواسطہ اور بلا واسطہ سرمایہ کاروں کو بچانے کے لیے "ترکی الزام” وضع کیا گیا ہے، ہمارے بعض سادہ لوح فضلا بھی اس مہم سے متاثر ہیں۔

اسلام پسند اور مذہب بیزار صفوں میں فرق کبھی مخفی نہیں تھا؛ لیکن تازہ تواریخ نے اسے بے حد عام فہم بنا دیا ہے، میرا اشارہ مقامی نزاع اور غزہ دونوں طرف ہے، اسلام کے وفادار ایک صف ہیں اور دشمن صف دوسری طرف، وہ محض لوجہ اللہ عالمی ہدف ہے، آپ کے لیے تو مقامی نارنگ کے کوائف چشم کشا تھے، کیا آپ نہیں جانتے کہ وہ زعفرانیوں کے نزدیک دشمن نمبر ایک ہے؟

گذشتہ الیکشن میں اردگان کی جیت کا فرق بال برابر رہا، سانسیں رک گئی تھیں، مخالف امیدوار دین بیزار خیمے کا نمائندہ تھا، گویا ترکی کی تقریبا نصف آبادی اسلام بیزار ہے، مثال کے طور پر شامی مظلوموں کو پناہ دینا طیب کے ان گناہوں میں ہے جو مخالف ووٹ متحرک کر رہا تھا، باقی ووٹ مغرب نوازی کے زمرے میں تھے، ترکی میں مذہب کی گھر واپسی ہنوز تشنہ ہے، بحالی اسلام کو آدھی مسافت پر چیلنج درپیش ہے اور مخالف سیلاب کی راہ میں واحد سد سکندری رجب طیب اردگان ہے۔

اردگان تجدید اور احیا کے باب میں اپنا کام کر چکے ہیں، اس حد تک کہ ان کا صلیبی اور صہیونی رد عمل سے بچ نکلنا مشکل ہے، اگر ہم "وقع القول” کے آس پاس ہیں تو بعید نہیں کہ رومیوں سے ہزیمت اٹھا کر شام میں پناہ لینے والے مسلم بادشاہ کا نام رجب طیب نکلے، اسلام کی درخشاں اردگانی خدمات کو بچشمِ سر دیکھ کر کس منہ سے اسے ترک قوم پرست اور عثمانی مخفی ایجنٹ کہتے ہیں؟ اس درجہ بے حیائی کیسے فراہم کر لیتے ہیں؟ اگر وہ ترک قوم پرستی کا علم بردار ہے تو نصف ترکوں کی مخالفت کی کیا توجیہ ہوگی؟ کیا وہ ترک نہیں؟ ان کو ترک اقتدار عزیز نہیں؟

اسرائیل تنہا نہیں ہے کہ اس پر حملہ کر دیں، وہ امریکی مقدمۃ الجیش ہے، مسیحی دنیا کا فرنٹ لائن سپاہی ہے، بہ صورتِ اقدام صلیبیوں کے اسی جھنڈے تیار ہیں، اردگان موجودہ عالمی بساط کا سب سے مضبوط مہرہ ہے، اب تک عنان گیروں سے بچتا آیا ہے؛ لیکن اگر وقت ہو گیا ہے تو اردگان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگا، یہ ملکِ شام کی نسبت بھی بعید نہیں؛ جب کہ زیادہ امکان اس کا ہے کہ راست ترکی میں مداخلت ہوگی، ٹرمپ قیادت کسی جلدی میں نہیں ہے؛ لیکن نیتن یاہو کے نزدیک وقت موعود حاضر ہے۔

ہم اردگان دور کے شاہد ہیں، یہ ماضی کا قضیہ نہیں کہ روایات کی سند مسئلہ بن جائے، پھر کیسے بھٹک سکتے ہیں؟ اس کی کارگزاری آئینہ ہے، کھلی اور ناطق کتاب، اس کا فلسطین صفحہ بھی درخشاں ہے، فلسطینیوں کا سب سے بڑا عالمی حامی اردگان ہے، اس میں شک کرنے کے لیے اندھا، گونگا، بہرا ہونے کے علاوہ عقل سے بے نیاز ہونا بھی درکار ہے، اسرائیل سے برائے نام سفارتی اور تجارتی تعلقات فلسطینیوں کے نام ہیں، ترکی اپنا سفیر بہت پہلے بلا چکا ہے، نچلی سطح کا عملہ فلسطینی امداد کی سرگذشت کے لیے خاص ہے، تجارتی تعلقات اب یک طرفہ ہیں، یعنی ترکی صرف برآمد کرتا ہے، کچھ خریدتا نہیں، یہ ایک طرفہ تجارت بھی کافی حد تک فلسطینی امداد کے دریچے کو مفتوح رکھنے کے لیے ہے، دوسری مجبوری اپوزیشن ہے، جو تاک میں ہے کہ تجارتی بندش کو ترکی کے دس ارب ڈالر خسارے کا بیانیہ دے، ملک کو درپیش اقتصادی بحران میں اردگان پہلے ہی بیک فٹ پر ہے، اس کی سیاسی ناؤ ایک اور معاشی کمزور پوائنٹ کی متحمل نہیں۔

آپ کو ان کروڑوں اسلام پسند ترکوں کا بھی خیال نہیں جو نئے نئے بحال ہوے ہیں؟ مخالف رجحان آگیا تو ان پر کیا بیتے گی؟ جو اپوزیشن اسلام بیزاری کے عنوان پر اقتدار چاہتی ہے وہ حجاب کو معافی دے گی؟ ہمارا کوئی کردار نہیں؛ لیکن اخلاق ودیانت بھی کوئی چیز ہے، کم سے کم اللہ کے سامنے منہ دھو لیں، اردگان جیسے قائدین اس دور کے نہیں ہیں؛ مگر اللہ نشانیاں دکھاتا ہے، اس میں اتمام حجت ہے، جب غیروں کی غلامی متفق علیہ آپشن قرار پائے تب بھی کلمۂ اسلام کا منادی نمود لے سکتا ہے، اس باب کے خلیجی اعذار لنگ ہیں، اردگان اس کی برہان ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔