عمیر منظر کے خاکوں کا مجموعہ’’کیسے انھیں بھلائیں‘‘
از:- محمد اویس سنبھلی (لکھنؤ)
شعروادب کے میدان میں جوقلم کارنہایت سنجیدگی سے سرگرم عمل ہیں ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر عمیر منظر کابھی ہے ۔انھوں نے گذشتہ ایک دہائی کا عرصہ علم و تحقیق کے تئیں جس والہانہ شغف کے ساتھ گزاراہے اس سے ان کی ایک منفرد پہچان بنتی جارہی ہے ۔ وہ ایک فعال اور سرگرم ادبی شخصیت کے طور پر اردو کے ادبی منظر نامہ کا حصہ بن چکے ہیں اورمولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی (لکھنؤ کیمپس )کے تعارف کاایک معتبرذریعہ بنتے جارہے ہیں ۔ سرگرم ادبی کردار خون جگر صرف کیے بغیر ناممکن ہے ۔خوش آیند بات یہ ہے کہ یہ راز انھوں نے پالیا ہے ۔محقق اور شاعر کے طورپر تو وہ جانے ہی جاتے ہیں مگر ان کی تازہ ترین کتاب’’کیسے انھیں بھلائیں ‘‘سے وہ ایک خاکہ نگار کے طورپر سامنے آتے ہیں ۔
چند روز قبل ہی عمیر منظر کے خاکوں کا مجموعہ’کیسے انھیں بھلائیں‘ شائع ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ مجھے شدت سے اس کتاب کا انتظار تھا ۔خیر! کفر ٹوٹا خداخدا کرکے، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور کتاب ہم تک پہنچ گئی۔ فہرست پرنظر ڈالی تو اندازہ ہوا کہ بیشتر خاکے میرے مطالعے میں رہے ہیں، لیکن آج کتابی شکل میں انھیں دوبارہ پڑھ کر مزید خوش گواری کا احساس ہوا۔
عمیر منظر وسیع المطالعہ ہیں۔ان کی شخصیت اور فن کو نکھارنے میں اس کا اہم کردار ہے۔ان کی تحریروں میںزبان و بیان کی سادگی ، برجستگی، تلخ و شیریں تجربات ، عمیق مشاہدات اور نازک احساسات روزمرّہ کی گفتگو کی طرح درآتے ہیں۔کتاب میں شامل خاکوں کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے بڑوں سے فکری طور پر کسبِ فیض کیا ہے اور ان کے نثری فن پاروںکی روشنی میں اپنی تحریروں کو نکھارا ہے۔
عمیر منظر نے جن مختلف شخصیات اور افراد کے خاکے تحریر کیے ہیںان سے کسی نہ کسی طرح سے ان کا تعلق رہا ہے ۔ ایک اچھے خاکہ نگار کی طرح انھوں نے زیر تحریر شخصیت کے خدوخال کو نہ صرف واضح کیا ہے بلکہ بعض خاکوں میں ہم انھیں چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں ۔ ان سب کے درمیان انھوں نے خود کونمایاں نہیں ہونے دیا ہے۔کتاب میں کل 20؍خاکے شامل ہیں۔ابتدائی چودہ خاکے ان لوگوں پر ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔بقیہ خاکے زندوں کے ہیں ۔ایک طرف جہاں انھوں نے مشاہیر علم وادب مولانا ابو اللیث ندوی ،قرۃ العین حیدر،شمس الرحمن فاروقی ، شمیم حنفی،حفیظ نعمانی، مجتبیٰ حسین ، ضیا فاوقی ،پروفیسر اشتیاق احمد ظلی پر قلم اٹھایا ہے تو وہیں بدھو بھیا، معظم بلال ،سریش چندر شکل اور محمد علم اللہ سے ادبی دنیا کو متعارف کرایا ہے ۔
کہتے ہیں کہ خاکے کی شخصیت ایک تراشے ہوئے مجمسے کی طرح ہوجاتی ہے جس کے ناک نقشے میں خاکہ نگار کوئی رد و بدل نہیں کرسکتا ،اسے تو بس اس مجسمہ کو اٹھاکر طاق پر سجا دینا ہوتا ہے۔ بہ ظاہریہ سادہ اور آسان نظر آنے والا کام ہے لیکن یہ کام اس قدر دشوار اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ کوئی خاکہ نگار اسے اس وقت تک انجام دے ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنے موضوع کے خارج اور داخل سے بخوبی واقف نہ ہو ،گویا خاکہ نگار کا یہ فرض ہے کہ وہ صاحبانِ خاکہ کے اندر جھانکے اور پھر جو دیکھے اسے اس طرح بیان کرے کہ پڑھنے والا اس شخصیت کو تہہ در تہہ دیکھ سکے۔ اس تناظر میں کتاب کے بہت سے خاکے بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔بہ حیثیت استاد اور ادیب کے پروفیسر شمیم حنفی کا خاکہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔استاد وشاگردکی مثالی قدریں آنکھوں کے سامنے روشن ہوجاتی ہیں۔یہ کہنا زیادہ بہتر قرار پائے گا کہ وہ لوگ جنھوں نے پروفیسر شمیم حنفی کو نہیں دیکھا ہے وہ اس خاکے کی مدد سے ان کی شخصیت اور مزاج کو نہ صرف سمجھ سکیں گے بلکہ قاری کو ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے وہ اپنی کھلی آنکھوں سے ان کی ادبی سرگرمیوں کو دیکھ اور سن رہا ہے ۔
یہ کتاب ڈاکٹر امان اللہ فہد فلاحی کو معنون ہے جو فاضل مصنف کے حلقہ احباب میں شامل تھے ۔ نام کی رعایت سے ’’فہداللہ کی امان میں ‘‘خاکہ کی یہ سرخی بہت خوب ہے ۔اس خاکہ کو دوستی کی مثالی قدروں کے بیان سے تعبیر کیا جاسکتا ہے نیز خاکہ نگار نے غم واندوہ کے لمحات کو بھی کاغذ پراس طرح منتقل کیاہے کہ قاری کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
سرگرم صحافتی زندگی کی ایک روشن مثال حفیظ نعمانی کے خاکے میں دیکھی جاسکتی ہے ۔چند برس کی ملاقاتیں اور ان کے کالموں کو پڑھ کر ایک لاجواب خاکہ تحریر کیا گیا ہے، جس میں حفیظ نعمانی کی کئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔ان کی شخصیت ،مزاج ،پسند وناپسند ہی نہیں بلکہ علم وادب کی بیشمار باتیں کم لفظوں میںبیان کردی گئی ہیں ۔
بدھو بھیا ایک معمولی انسان کاغیر معمولی خاکہ ہے جسے پڑھ کر’’نام دیو مالی‘‘ اور اس نوع کے بعض دوسرے اردو کے مشہور خاکے ذہن میں آتے ہیں ۔
عمیر منظرکواپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی جن شخصیات کی شفقتیں اور محبتیں حاصل ہوئیں وہ سب قلم کے لیے مایہ نازتھے اوریہ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔ عمیر منظرنے ان سب کی صحبتوں سے خوب فائدہ اُٹھایا۔کتاب کے پیش لفظ کا پورا تانا بانا پروفیسر صغریٰ مہدی کی شفقتوں ، محبتوں اور نوازشات کے ارد گرد گھومتا نظر آتا ہے۔خود لکھتے ہیں:
ریسرچ تک پہنچتے پہنچتے پروفیسر صغرا مہدی صاحبہ کی عنایتیں اور شفقتیں راقم الحروف پر مزید بڑھتی چلی گئیں ۔غالباً 2007کی بات ہے کہ ایک روز انھوں نے کہا کہ تم کچھ دنوں کے لیے قرۃ العین حیدر صاحبہ کے یہاں جاؤ۔کچھ پڑھنے لکھنے کا کام ہوگا۔ اس سے تمھیں بہت فائدہ پہنچے گا۔اردو کی ایک ممتاز شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور انھیں جاننے کا بھی موقع ملے گا ۔۔۔چند روز بعد میں عینی آپا کے یہاں جانے لگا ۔قرۃ العین حیدر کے انتقال پر صغرا صاحبہ نے مجھ سے ایک مضمون لکھنے کو کہا۔انھوں نے کہا کہ اگر ممکن ہوتو اپنے چند ماہ کے ان تجربات کو لکھو جو ان کے یہاں آنے جانے کے دوران میں تم کو ہوئے ہیں ۔میں نے حامی بھر لی ۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں مگر تین چار ماہ کے اپنے تجربات کو میں نے تحریری شکل دینے کی کوشش کی ۔صغرا صاحبہ نہ صرف خوش ہوئیں بلکہ انھوں نے دعاؤں سے نوازا ۔زیر نظرکتاب میں شامل یہ خاکہ پہلے پہل شاہد علی خاں کے زیر ادارت نکلنے والے رسالہ ’نئی کتاب‘( شمارہ 3)میں شائع ہوا تھا ۔اسے میری خاکہ نگاری کی ابتدا کہا جا سکتا ہے ۔۔۔میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں کسی کاخاکہ بھی لکھ سکوںگا ۔۔۔۔دراصل یہ پورا سلسلہ پروفیسر صغری مہدی کی تحریک کا نتیجہ ہے ۔ بزرگوں کی تربیت کے مختلف انداز ہوتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ان کا ایک انداز ہی رہا ہوگا ۔ مجھ پران کی بے پناہ عنایتیں رہیں ۔‘‘
2012میں جب انہیں آب ودانہ اٹھا کرلکھنؤ لے آیا تو یہاں انھیں پروفیسر شاہ عبدالسلام ، ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، پروفیسر شارب ردولوی،حفیظ نعمانی، چودھری شرف الدین اور خواجہ یونس جیسی ملی ،سماجی، علمی و ادبی شخصیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی اور مشتاق اعظمی جیسے صاحبان علم و ادب سے بھی انھوں نے خوب استفادہ کیا۔لہٰذاگذشتہ 20-25 برس کی ایسی بہت سی یادیں اور باتیںجو ان کے سینے میں محفوظ تھیں،اب خاکوں کی شکل میں ادب کا حصہ بن گئی ہیں۔
’’کیسے انھیں بھلائیں ‘‘کے خاکوں کا ایک حسن زبان وبیان کی دلکشی بھی ہے ۔عمیر منظر نے ان خاکوں میںعام فہم زبان استعمال کی ہے۔بات سے بات نکالنے کا انداز بھی معنیٰ خیز ہے۔اردو ادب میں اس نوع کے لکھنے والے بہت کم ہیں۔زیر تحریر خاکہ کے گردو ونواح معلومات اور مشاہدات کو بہت سلیقے سے مرتب کیا گیا ہے ۔ادھراُدھر کی باتیں بہت کم ہیں ۔کتاب کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ فاضل خاکہ نگار نے خود کو بہت سمیٹ کر لکھاہے شاید یہی وجہ ہے کہ کتاب کا مطالعہ قاری کے لیے دلچسپی اور دلکشی کا ایک انوکھا تجربہ بن جاتا ہے ۔اور یہ تمام لوگ اُس کے لیے جانے پہچانے بن جاتے ہیں ،جنھیںبھلانا شاید اب اس کے لیے بھی آ سان نہ ہو۔
عمیر منظر کا میدان شاعری ، تنقید اور تحقیق ہے ۔کلاسیکی شاعری، قدیم ادب اور کتابیں ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں ۔وہ شاعر بھی ہیں لیکن اس بارے میں کوئی دعوی نہیں کرتے۔ ہندستان کے اہم اور تاریخی مشاعروں میں بطور شاعر اور ناظم مشاعرہ کے وہ شریک ہوچکے ہیں ۔
نئے موضوعات کی تلاش و جستجو اور پھر کسی اہم نکتے تک رسائی ڈاکٹرعمیر منظرکا اہم کارنامہ کہاجاسکتاہے اس تناظر میں ’’ شبلی، مکاتیب شبلی اور ندوۃ العلماء ‘‘ اور ’’خان محبوب طرزی: لکھنؤ کا ایک مقبول ناول نگار‘‘جیسی کتابوں کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ انھوں نے منچندا بانی اور رشیدحسن خاں پرمونوگراف لکھا ہے ۔ان تالیفات و تصنیف کی فہرست میں اب ایک نئی تصنیف خاکوں کا مجموعہ ’’کیسے انھیں بھلائیں‘‘کا اضافہ ہوا ہے۔مجھے امید ہے علمی و ادبی حلقوں میںکتاب کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی اور یقین کامل ہے کہ ڈاکٹر عمیر منظر ادب کی خدمت ہمیشہ اسی جذبے کے ساتھ کرتے رہیں گے اور کامیابی ان کے قدم چومتی رہے گی۔کتاب حاصل کرنے کے لیے مصنف ڈاکٹر عمیر منظر سے 9818191340پر رابطہ قائم کریں۔