عیار سیاست اور سادہ لوح مذہب
از:- ابوفہد، نئی دہلی
مذہبی افراد کی حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور حساسیت کو جنون وافیون سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ ایک طرح سے اہل مذاہب کے لیے گالی ہے، جو روشن خیال مفکروں ،نامراد ادیبوں، سیاسی تجزیہ نگاروں اوربے دین رہنماؤں کی طرف سے اکثر وبیشتر دی جاتی ہے۔
مذہب اور اہل مذہب کے خلاف یہ بات بھلے ہی سچ ہو یا کسی حد تک سچ نہ ہو مگر اس خاص حوالے سے یہ بات سچ ضرور ہے کہ اہل مذاہب کے اسی افیونی اورجنونی مزاج کو سیاسی افراد اور سیاسی پارٹیوں نے خوب خوب کیش کرایا ہے۔ شاہوں نے بھی اور جمہوری طورپر منتخب نمائندوں نے بھی۔ماضی قریب کی بات کریں تو برصغیر کی سیاست میں دو بڑے چہرے ایسے ہیں کہ وہ اپنی ذات کی سطح تک بالکل بھی مذہبی نہیں تھے، جناح اور ساورکر۔ مگر انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی بساط پرمذہبی کارڈ کھیلا اور اپنی سیاسی دکانداری بڑھائی۔ موجودہ دور میں دنیا بھر میں جتنی بھی جمہوری وغیر جمہوری حکومتیں ہیں، ان سے وابستہ بیشتر سیاسی افراد اپنی ذاتی زندگی میں عام مذہبی افراد کے برخلاف بہت ہی روشن خیال اور کسی حد تک بے دین بھی وا قع ہوئےہیں، مگر سب کے سب اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے مذہبی کارڈ کھیلتے رہے ہیں۔ برسراقتدار حکومت کو گرانا ہو یا اپوزیشن کو اقتدار میں لانا ہو، حتی کہ سیاسی حریفوں کو شکست دینا یا انہیں نیچا دکھا نا ہو ،ہر صورت اور ہر حال میں اسی مذہبی جنون وافیون کاسہارا لیا گیا ہے۔
یہ مذہبی جنون بھی بڑی عجیب شے ہے، اس حد تک عجیب ہےکہ صدیوں تک آدمی کا استحصال ہوتارہتا ہے اور آدمی کو احساس تک نہیں ہوتا۔
آپ جانتے ہیں کہ پڑوسی ملک کو مذہب کے نام پر ہی حاصل کیا گیا، قطع نظر اس سے کہ تقسیم غلط تھی یا صحیح، لیکن جس نام پردو قومی نظریہ پیش کیا گیا اور ایک الگ ملک بنانے کی مانگ اٹھائی گئی اور پھر اسے تسلیم کیا گیا، اس مانگ کے خنجرپر اسی جنون وافیون کی سان چڑھائی گئی۔ اسی طرح وطن میں اس وقت جو پارٹی برسر اقتدار ہے وہ بھی اسی جنون وافیون کے سرخ قالین پر چل کر آگے بڑھی ہے اور اقتدارتک پہنچی ہے اور اسی جنون وفیون کے زور پر تادیر اقتدار میں بنے رہنا چاہتی ہے۔
ادھر تقریبا دوصدیوں سے پوری دنیا میں جمہوری طرز حکومت کا بڑا غلغلہ ہواجس کے نتیجے میں آج تقریبا پوری دنیا میں جمہوری نظام حکومت ہی رائج ہے، حتیٰ کہ جن ممالک میں شاہی حکومتیں ہیں وہاں بھی شہنشاہیت کے چہرے پر جمہوری غازہ مَلا ہوا ہے۔ مگر دو صدیوں بعد بھی دنیا میں امن وامان کی صورت حال پیدا نہیں ہوسکی ہے، بلکہ اضطراب انگیزی کسی قدر بڑھی ہے۔جمہوریت میں سب کے لیے آزادی اور مساوات کی با ت کہی گئی تھی اور اسی نعرے اور دعوے کے زورپر مذہب کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا مگر آج دنیا میں آزادی ومساوات کی جو صورت حال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔دنیا کے بڑے بڑے جمہوری ممالک میں آزادی ومساوات کا محض نام ہی نام ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی یہی دیکھ رہے ہیں اور دنیا کی دیگر جمہوریتوں کا بھی یہی رنگ ڈھنگ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی جو سیاسی پارٹی جمہوریت کے سہارے اقتدارمیں آتی ہے وہ اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے، یہاں تک کہ آزادیوں کو سلب کرتی ہے اور مساوات کا گلا گھونٹتی ہے۔فرعون سے ہٹلر تک جتنے بھی ہلاکو اور چنگیز خان ہوئے ہیں ان میں سے کوئی بھی مذہبی نہ تھا، اسی طرح بیسویں صدی کے اوائل اور وسط میں جو دو عالمی جنگیں ہوئیں ہیں ان کے اسباب اور سروکار بھی مذہبی نہ تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران محتاط اندازے کے مطابق ستر سے پچاسی ملین انسان براہِ راست جنگ کے شعلوں میں بھسم ہوئے اور سترہ سے اٹھائیس ملین جنگ کے ما بعد اثرات کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے۔اور یہ سب سیاست کی کارستانیوں کے سبب ہوا۔
مگر دنیا بھر کے مذہبی افراد اور نمائندوں کی سمجھ میں کبھی بھی یہ بات نہیں آسکی اور وہ آسانی کے ساتھ سیاسی افراد اور سیاسی جماعتوں کے آلۂ کار بنتے چلےگئے۔ بلکہ یوں بھی ہوا کہ جہاں بھی اور جب بھی مذہبی نمائندوں کو یہ محسوس ہوا کہ کسی پارٹی کا برسراقتدار آنا ان کے اپنے مذہب کے لیے بہتر ہوسکتا ہے تو وہ آسانی کے ساتھ اس سیاسی پارٹی کے ساتھ چلے گئے، یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ ان کا کام تو محض سیاست کرنا اورحکومت کرنا ہے مذہب کے استحکام سے انہیں کچھ لینادینا نہیں۔
اس کے برخلاف اگر ایسا ہوتا کہ دنیا کے تمام مذہبی افراد اور نمائندے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتے اور آزادی ومساوات کی دعویداری کے ساتھ اقتدار سنبھالتے تو شاید آج جو صورت حال ہے یہ کہیں زیادہ بہتر ہوتی کیونکہ مذہبی افراد کے سروکار عالمی ہیں، اسلام میں الخلق عیال اللہ کہا گیا ہے، کہ ساری خدائی خدا کا ایک کنبہ ہے۔ اور اس اصول کے تحت سب کو ایک نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔مذہب میں قلب ونفس کی صفائی پر بھی بہت زور دیا گیا ہے، مذہب میں روحانیت کو بھی بڑا مقام حاصل ہے اورانسانی جان ومال کو حد درجے احترام بھی۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ اگر مذہبی افراد جو انسانیت کے درد کو سمجھتے ہیں اور جومادیت کی جگہ روحانیت کی با ت کرتے ہیں، اگر وہ کسی نظام حکومت کوچلائیں گے تو ایسا نظام حکومت کہیں زیادہ آزادیوں اور مساوات پر مبنی ہوگا، بشرطیکہ جو لوگ اس میدان میں آئیں وہ ذہنی طور پر کھلے ذہن کے ہوں اور مذہب کی درست تعبیر کرتے ہوں اور کل انسانیت کو ایک آدمی کے سمان مان کر سب کو برابری کا حق دینے کے لیے تیار ہوں اور کم از کم اصولوں اور نظام کی سطح تک جمہوری اقدار واخلاقیات کو بھی گوارہ کرنے کے روادارہوں۔
اسی بات کو مولانا علی میاں مرحوم نے اپنے انداز میں اس طرح لکھا ہے:
’’رسول اللہﷺ نے اپنے پیغام اور اپنی دعوت کے ذریعہ سے جس فرد کو تیار کرکے کارگہ حیات میں اتارا تھا، وہ اللہ پر سچا ایمان رکھنے والا، نیک خوئی پسند کرنے والا، اللہ کے خوف سے ڈرنے والا اور لرزنے والا، امانت کا پاس کرنے والا، دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والا، مادہ کو حقیر سمجھنے والا اور اپنی روحانیت سے مادیت پر غالب آنے والا تھا، وہ اس بات پردل سے یقین رکھتا تھا کہ دنیا تو میرے لیے بنائی گئی ہے، لیکن میں آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ پس یہ فرداگر تجارت کے میدان میں اترتا تو نہایت سچا اور ایمان دار ثابت ہوتا، اگر مزدوری کا پیشہ اختیار کرتا تونہایت محنتی اور بہی خواہ مزدور ثابت ہوتا، اگر مال دارہوجاتا تو ایک رحم دل اور فیاض دولت مند ثابت ہوتا، اگر غریب ہوتا تو شرافت کو قائم رکھتے ہوئے مصیبتوں کو جھیلتا، اگر کرسی عدالت پر بٹھادیا جاتا تو نہایت سمجھ دار اور منصف جج ثابت ہوتا، اگر صاحب سلطنت ہوتا تو ایک مخلص اور بے غرض حکمراں ثابت ہوتا، اگر آقا ہوتا تو رحم دل اور منکسر المزاج آقا ہوتا، اگر نوکر ہوتا تو نہایت چست اور فرماں بردار نوکر ہوتا اور اگر قوم کا مال ودولت اس کی تحویل میں آجاتا تو حیرت انگیز بیداری اور باخبری سے اس کی نگرانی کرتا۔‘‘ (کاروان مدینہ: ۴۴)
سیاست اور مذہب میں یہ بنیادی فرق ہے کہ سیاست ملک کی سرحدوں میں قید ہے جبکہ مذہب سرحدوں میں قید نہیں ہے، مذہب بھلے ہی مختلف اور الگ الگ ہوں مگر ہر مذہب کے انسانی سروکار عالمی ہیں، ہر مذہب انسانیت کی بات کرتا ہے، بھلے ہی کسی مذہب میں چند چیزیں اور اصول ایسے ہوں جو بظاہر انسانیت کے خلاف ہوں یا بعد کے زمانوں میں کچھ ایسی رسوم فروغ پاگئی ہوں جو انسانیت کی پیشانی پر بدنما داغ جیسی ہوں تاہم اسی مذہب میں انسانیت کے حوالے سے عالمی سروکار موجود ہیں۔ اس لیے اگر مذہب کو اس کی اصل اسپرٹ کے ساتھ معاشروں میں جاری کیا جائے تو انسانیت کو بہت کچھ خیر حاصل ہوسکتا ہے۔
دنیا نے آج تک جو کچھ بھی بُرادیکھا ہے، جتنی بھی جنگیں دیکھی ہیں اور فسادات جھیلے ہیں، ایسی جنگیں اور فسادات بھی، جو بظاہر مذہبی جوش وجنون کے زور پر برپا کئے گئے، مذہبی انتقام کی آگ ان میں بھڑکی ہوئی محسوس ہوتی ہے،ان کے تعلق سے بھی صحیح اور درست بات یہی ہے کہ ان کے پس پردہ بھی سیاست ہی کا ہاتھ ہے۔موجودہ حالات میں روہنگیا پر ظلم ہو، پڑوسی ملک کی تقسیم ہو، بابری مسجد کی شہادت ہو یا پھر کسی ملک کی پیشانی پر ہزاروں فسادات اور بم بلاسٹ کا بدنما داغ ہو، یہ سب بظاہر مذہبی جوش وجنون کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے، حقیقت یہی ہے کہ ان سب کے پیچھے بھی سیاست ہی ہے۔روہنگیا کو بظاہر بدھسٹ مونکس نے قتل کیا ہو اور بابری مسجد بظاہر ہندومذہبی جنونیوں نے ہی شہید کی ہو مگر ان سب حوادث کے پس پردہ سیاسی عزائم ہی تھے اور سیاسی خفیہ ہاتھ ہی ان کے پیچھے رہا ہے۔ اس کا نقصان گرچہ عوام کو اٹھانا پڑا مگر اس کا فائدہ از اول تاآخر انہی سیاسی لوگوں کو ملا، جو پردہ ٔزنگار میںچھپے سیاست کی بساط بچھائے بیٹھے تھے اور بہت سوچ سمجھ کر شطرنج کے مہرے چل رہے تھے۔
مگر افسوس کی بات یہی ہے کہ مذہبی لوگوں نے، علماء نے، پنڈتوں نے، فادرس نے اور صوفی سنتوں اور رشیوں منیوں نے اس با ت کو نہیں سمجھا اور سیاست کا دیو ہیکل پہیہ انہیں کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا، انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ انہیں ہاتھ کے رومال کی طرح استعمال کیا جارہا ہے بلکہ آج کے جدید کلچر کے لحاظ سے ،کہنا چاہیے کہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔وہ بڑی آسانی سے سیاسی ہتھکنڈوں کا شکارہوتے چلے گئے۔ان کے ذہن میں کبھی بھی یہ بات نہیں آسکی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرنے کے بجائے سیاسی طاقتوں سے پنجہ آزمائی کریں، سیاست کو اپنے ہاتھ میں لیں اورعدل وانصاف کے ساتھ ملک کا اور دنیا کا انتظام چلائیں۔کیونکہ جو شخص ذاتی سطح پر بہتر ہوگا، رحم دل ہوگا، مادیت کا پجاری نہیں ہوگا،حق اور انصاف کی بات کہنے میں اپنوں اوراہل ثروت کا لحاظ نہیں کرے گا وہی آدمی اس لائق ہوگا کہ وہ نظام حکومت کو بھی اچھی طرح چلا سکے۔ اس کے برخلاف جو آدمی ذاتی سطح پر خاندانی اثرات کی وجہ سے یا اپنی نہاد وافتاد کی وجہ سے سخت دل ہوگا،پیسہ کمانا اور اقتدار پر جمے رہنا ہی اس کا مطمح نظرہوگا وہ کبھی بھی عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کا کاروبار نہیں سنبھال سکتا۔مشکل یہی ہے کہ سیاست میں اکثر ایسے ہی لوگ پہنچے ہیں اور برابر پہنچ رہے ہیں جو مادی رجحان رکھتے ہیں، پشتینی کبرونخوت ان کے مزاج کا بڑا اہم حصہ ہے، جس طرح وہ سیاست میں آنے سے پہلے اپنے گھر کے افراد پر حکم چلاتے تھے اور نوکروں کے لیے ہٹلری فرمان جاری کرتے تھے، سیاست میں آنے کے بعد بھی ان کا یہی مزاج کام کرتارہا، وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ کر بھی اسی طرح ہٹلر شاہی فرمان جاری کرتے رہے، وہ اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں اور سیاست میں آنے کے بعد ان کی ساری ذہانت اور قوت بس ایک ہی پوائنٹ پر آکر جمع ہوجاتی ہے کہ انہیں کس طرح مزید طاقتوربننا ہے، اس کے علاوہ باقی ہر چیز ان کے لئے ثانوی ہے، ہر اس واقعے کی ان کے نزدیک اہمیت ہے جو انہیں مزید طاقتور بنائے اور ہر اس واقعے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں جو انہیں کمزور کرے یا طاقتور پر نہ بنائے۔ اب ان واقعات کی وجہ سے لوگوں کی جان پر ہی کیوں نہ بن آئی ہو اور عوام اور ملک کا خواہ کیسا بھی نقصان کیوں نہ ہوتا ہو، انہیں اس سے کچھ سروکارنہیں، یہ ان کے لیے معمولی چیزیں ہیں۔ خواہ قدریں الٹ پلٹ ہوتی ہوں، آزادی ومساوات کا جنازہ نکلتا ہواور خواہ ایسا ہوتا ہو کہ سارا ملک نفرت کی آگ میں جلنے لگاہو۔ اگر وہ اور ان کی کرسی اپنی جگہ مستحکم ہیں توپھر کسی بھی چیز سے ،واقعے سے اور حادثے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔آخرسیاست دنیا کی سب سےزیادہ کٹھور چیزوں میں سے ایک ہےاور سیاسی انسان معدودے چند کے استثنیٰ کے ساتھ دنیا کاسب سے زیادہ سخت دل اور بے رحم انسان ہوتا ہے۔
جمہوری حکومتوں میں یہ عجیب سی صورت حال ہے کہ کئی ممالک میں بعض خاندان اور بعض قومیں ہی حکومت میں صدیوں سے بنی ہوئی ہیں، حالانکہ جمہوریت میں عوام کی حکومت کی بات کہی گئی ہے مگر اس کے باوجود بعض اقلیتیں اور بعض خاندان ہی اقتدار پر جمےہوئے رہتے ہیں، امریکہ سے ہندوستان تک کئی مشہور خاندان ہیں جو ایک طویل زمانے تک اقتدارمیں بنے رہے اور کئی اقلیتیں ہیں جیسے ہندوستان میں برہمن اقلیت میں ہیں مگر وہ ہمیشہ ہی اقتدار پر قابض رہے ہیں۔ بالکل یہی مثال ایک بڑے کینوس پربھی سامنے آتی ہے کہ آج کی موجودہ دنیا میں بھی جو لوگ کسی نہ کسی مذہب میں آستھا اور ایمان رکھتے ہیں ان کی تعداد کچھ نہیں تو ستر، اسی فیصد تو ہے ہی، جبکہ اس کے برخلاف جولوگ غیر مذہبی خیالات کے حامل ہیں یا جزوی طور پر مذہبی ہیں مگر آزادانہ رجحان وخیال رکھنے کے باعث غیر مذہبی زیادہ ہیں، ان کی تعداد دنیا بھر میں بیس تیس فیصد ہی ہوگی مگر اقتدار اور حکومت میں انہی کی نمائندگی زیادہ ہے۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک آدمی جو ذاتی سطح پر بالکل بھی مذہبی نہیں ہوتا، مگر وہ کسی نہ کسی طرح سیاسی اثر ورسوخ حاصل کرلیتا ہے اور پھر اسی افیون وجنون کو اپنے حق میں کیش کراکے اپنے قدکاٹھ کو بلند کرتا ہے۔اور اقتدار پر قبضہ جمالیتا ہے۔مذہبی لوگوں کے پاس تو بس لیڈر چننے کا اختیار ہے اور اس اختیار کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ دو بُروں میں ایک کم بُرے کو چن سکتے ہیں اور بس۔