ظرف اور انسان
ظرف اور انسان
محمد عمر فراہی
انسان کی زندگی میں اس کے کردار کا سب سےقیمتی سرمایہ اس کا ظرف ہے اور ظرف کا تعلق آدمی کے ضمیر سے ہوتا ہے ۔
ضمیر ہر شخص کے اندر جلتا ہوا ایک ایسا چراغ ہے جو اسے اس کے اصل رخ اصلیت اور اس کی اصل فطرت پر قائم رہنے کی رہنمائی کرتا ہے مگر کچھ لوگ دنیا کی ظاہری اور فوری لذت اور عیش و عشرت کی زندگی کی خاطر اپنے ضمیر کی روشنی اور آواز کو نظر انداز کردیتے ہیں یا اس کا سودا کر لیتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ جب کچھ لوگوں کے اندر سے ان کے اپنے ضمیر اور حق کی چنگاری سرد پڑ جائے تو ان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اور پھر ان سے کسی بھی طرح کی ہمدردی اور صلہ رحمی کی توقع بے سود ہو جاتی ہے بلکہ یوں کہیں کہ اکثر ایسے انسانوں کا گروہ فساد فی الارض کا مرتکب ہو کر اقوام عالم کیلئے تباہ کن بھی ثابت ہوا ہے ۔ماضی کے انبیاء کرام کی بہت سی ایسی ہی قوموں کو قدرت نے عذابات کے ذریعے ہلاک کر دیا لیکن یہ بھی ہے کہ ہر شخص اور قوم کے ظرف اور ضمیر کو ترازو کے پلڑے پر برابر برابر نہیں تولا جا سکتا ۔کچھ لوگوں کا ضمیر تو زندہ ہوتا ہے لیکن ان سے اعلیٰ ظرف کے مظاہرے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
اسی ظرف پر ہما کان پوری نے کہا ہے کہ
سنبھل ہما کی یہی وقت ہے آزمائش کا
چلے ہیں لوگ ترا ظرف آزمانے کو
یعنی انسان کی زندگی میں اس کے کردار سے ظرف ختم ہو جاۓ یا اس کا ضمیر مردہ ہو جائے تو وہ نہ صرف اشرف المخلوقات کی فہرست سے باہر نکل جاتا ہے اس کی حرکتیں دیگر مخلوقات سے بھی زیادہ خطرناک اور گھناؤنی ثابت ہونے لگتی ہیں ۔اب یہاں سے یہ بحث شروع جاتی ہے کہ ظرف کا اعلی مقام کیا ہے اور کم ظرف کسے کہتے ہیں ۔کم ظرف کی ایک مثال تو یہ ہے کہ وہ موقع پرست بے وفا اور ناشکرا ہوتا ہے اوراپنے فائدے کیلئے اپنے محسن کو بھی دغا دینے سے باز نہیں آتا جبکہ ظرف یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی سے بدلہ لینے کا حق اور اختیار حاصل ہو پھر بھی وہ اسے معاف کردے ۔اعلی ظرف کی مثال یہ ہے کہ کچھ لوگوں کی آپ کے بارے میں نیت درست نہیں ہوتی یا وہ آپ کے بارے میں اچھا نہیں سوچتا پھر بھی آپ کسی خونی رشتے یا پرانے تعلقات کی وجہ سے ان کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں اور بھلا سوچتے ہیں ۔اس ظرف کا مظاہرہ وہی کرتے ہیں جو بہت ہی مضبوط ذہن و عصاب کے مالک ہوں ۔خیر ظرف کی یہ دولت اکثر قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہے اور کچھ خاندانی تربیت اور اچھے لوگوں کی سنگت سےبھی انسانوں کو متاثر کرتی ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوۓ بھی ان خصوصیات سے اثر انداز ہوتے رہتا ہے ۔اسی لئے کہتے ہیں کہ اچھے لوگوں کی سنگت اختیار کرنا چاہئے ۔ایک اچھے پرہیزگار اور عالم شخص کی رہنمائی اور قربت ایک شخص کی کردار سازی میں سیکڑوں کتابوں کے مطالعے سے زیادہ سود مند ہوتی ہے ۔بدقسمتی سے نئے دور میں علم کا تو سیلاب امڈ رہا ہے لیکن نئے دور کے انسانوں کی مادہ پرستانہ ذہنیت اور سرمایہ دارانہ سوچ نے علم والوں سے بھی ان کے ضمیر کا سودا کرلیا ہے ۔