نوشاد : موسیقار اعظم ہی نہیں ، ایک عظیم انسان بھی
از:- سعید حمید
موسیقار اعظم نوشاد صاحب کا غالباً ۱۹۸۸ ء میں ، انٹریو ان کے باندرہ پر واقع بنگلہ پر لیا تھا ، یہ ایک طویل انٹرویو تھا ، جو ہفت روزہ اخبار عالم کی کسی اشاعت میں شایع ہوا ۔ یہ انٹریو دو قسطوں میں شایع ہوا ، اور یہ دوسری قسط تھی ، جس کی یہ نقل ہے ۔۔دراصل انٹریو مکمل ہونے کے بعد میری نوشاد صاحب سے جو گفتگو ہوئی ، اس کا تذکرہ اس میں ہے ، یہ ایک انتہائی جذباتی لمحہ تھا ، جب ان کی مرحومہ شریک حیات کا ذکر چھڑ گیا جن کا انتقال کینسر کے مرض کی وجہ سے ہو ا تھا ۔ اس انٹریو سے پتہ چلتا ہے کہ نوشاد فلمی دنیا کے ایک کامیاب ترین موسیقار ہونے کے باوجود فلمی اثرات سے بالکل پاک تھے ، وہ ایک گھریلو انسان تھے ، جن کیلئے ان کا کام ہی سب کچھ تھا ، اور دولت شہرت ، کے پیچھے وہ نہیں بھاگتے تھے ۔
البتہ ان کی بیگم صحیح معنوں میںان کی شریک حیات تھیں، جنہوں نے نوشاد صاحب کو زندگی کی دیگر فکروں ، الجھنوں سے آزاد کردیا تھا ، کہ وہ بس اپنے فن پر ہی توجہ دیں ۔اپنی بیگم کی وفات پر نوشاد صاحب نے ایک قطعہ بھی کہا تھا ، اور یہ قطعہ اس انٹرویو میں خصوصی طور پر شایع ہوا تھا ۔ اس انٹریو ( دوسرے حصۃ ) سے موسیقار اعظم نوشاد کی نجی زندگی پر اچھی خاصی روشنی پڑتی ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ نوشاد صاحب فلمی دنیا میں ایک درویش صفت انسان تھے ، یقین کیلئے اس انٹریو میں شامل مندرجہ ذیل اقتباس ہی پڑھ لیجئے ، جب انہوں نے ایک بات پر کہا : میں نے کبھی فلمی زندگی میںپیسے کی طمع نہیں کی ، پیسے بناؤں کبھی یہ خواہش نہیں رہی ، خدا اچھا کام کرادے ، بس یہی تمنا تھی ۔
اپنا گھر ، اپنے بچے ، بس ا سی دائرے میں رہا ۔۔۔۔اور خدا نے میری آبرو رکھی ۔۔
اسکولوں ، مدرسوں کے کاموں میں بھ حصہ لیا ، کبھی روپوں کے پیچھے نہیں بھاگا ۔۔۔۔حالانکہ لوگ دروازے پر بلینک چیک لے کر کھڑے رہتے تھے ۔۔
اور اگر یہ لالچ ہوتی تو آج پورا کارٹر روڈ میری ملکیت ہوتا ۔۔۔۔
میں معذرت کرلیا کرتا تھا کہ دوسرے بھی موسیقار ہیں ، انہیں کام دو ۔
آج بھی میرے مطلب کی فلم نہیں ہوتی ہے ، تو ہاتھ جوڑ کر معذرت طلب کرلیتا ہوں ، برلا اور ٹاٹا بھی وہی روٹی کھاتا ہے ،
ایک غریب بھی وہی روٹی کھاتا ہے ۔
کچھ اچھا ہو تو اطمنان ہوتا ہے ۔۔
اللہ عزت دے ، عزت رکھے ، عزت سے رکھے !!