اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تجزیہ و تنقید

بابری مسجد؛ جہاں انصاف کو دفن کر دیا گیا

چھ دسمبر1992کی رات، بی بی سی نے اپنی نشریات روک کر اعلان کیاکہ اتر پردیش کے شہر فیض آباد سے...
Read More
تجزیہ و تنقید

بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار !

بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار ! از: شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز) ___________________ آج 6 دسمبر...
Read More
تجزیہ و تنقید

بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات

بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات از: محمد شہباز عالم مصباحی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ آف...
Read More
دین و شریعت

دور حاضر میں مساجد کی حفاظت اور ہماری ذمہ داریاں

اسلام میں مساجد کو ہمیشہ ایک مقدس مقام اور روحانی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ محض عبادت کا...
Read More
دین و شریعت

انسان کا سب سے بڑا دشمن خود اس کا نفس ہے!

انسانی نفس میں اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت ،زہد و تقویٰ اور خیر و بھلائی بھی رکھا ہے اور...
Read More

ہمارا بچپن اور مبارک رمضان

✍️  ظفر امام، دارالعلوم بہادرگنج

___________________

  بچپن کا ہر نظارہ دل افروز، اس کا ہر منظر روح افزا،اس کی ہر رُت سلونی اور اس کا ہر موسم سُہانا لگتا ہے،شاید اس لئے کہ ہم اس نظاروں بھری دنیا میں نئے وارد ہوتے ہیں،اس کائناتِ رنگ و بو میں ہم پہلی بار آنکھیں کھولتے ہیں، اس وادیٔ گُل کے رنگارنگ گلوں کی بھینی بھینی اور عطر بیز خوشبوؤں کو ہم پہلی بار محسوس کرتے ہیں، اس نیلگوں آسمان کی ٹھنڈی چھاؤں پر ہم پہلی بار جگمگاتے ستاروں کی جھرمٹ کا مشاہدہ کرتے ہیں،اِس جلوہ گاہِ جہاں کے رنگین جلووں سے ہم اول مرتبہ روبرو ہوتے ہیں،غرض یہ کہ جوں جوں بزمِ کائنات کی شمع ہماری نیم باز آنکھوں کے سامنے اُجلتی جاتی ہے،ہمیں ایک ایسی لطیف اور نئی چیز کا حصول ہوتا جاتا ہے جس کو ہم آخری سمجھ بیٹھتے ہیں،اور سوچتے ہیں کہ شاید اس پُرنور نظارے پر ہی دنیا تمام ہے،پھر جب ہمارا قافلۂ حیات بچپن کے پڑاؤ سے کچھ آگے بڑھتا ہے اور ہمارے بچپن کا کارواں ہم سے دور بہت دور جا چکا ہوتا ہے،اس وقت بھی یہ پُربہار مناظر ہماری آنکھوں کے مطاف میں گھومتے ہیں مگر بار بار ان منظروں کے مشاہدہ کے بعد یہ ہماری روز مرہ کی زندگی کا جز بن جاتے ہیں،پھر یہ مناظر باوجود پُرکشش ہونے کے ہماری نگاہوں میں رفتہ رفتہ اپنی کشش کھو بیٹھتے ہیں۔
    
           جمالؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
           جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسماں میں نے

    آج جب بچپن ماضی کی وادیوں میں کہیں گم ہوگیا ہے،اور میں بچپن کیا لڑکپن کی حدود کو بھی بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں بچپن کی البیلی یادیں اور اس کے نرالے منظر ہر وقت آنکھوں کے سامنے رقصاں رہتے ہیں،بسا اوقات اپنے بچپن کو یاد کرکے اتنا جذباتی ہوجاتا ہوں کہ بےساختہ ایک ”آہ“زبان کی راہ سے نکل کر دل کے آبگینے پر کسک جگا جاتی ہے،اور ذہن ماضی کی ڈگر پر بگٹُٹ دوڑ پڑتا ہے، جہاں اسے ہر افق پر بچپن کے مناظر جھلملاتے نظر آتے ہیں،انہی مناظر میں سے ایک نہایت خوبصورت منظر میرے بچپن کا رمضان بھی ہے،جس کی کچھ جھلکیاں آج میں سپردِ قلم کرنے بیٹھا ہوں۔
     آج جب اپنے بچپن کے رمضان کو سوچتا ہوں تو سب سے پہلے جس چیز کی یاد انگڑائی لیتی ہوئی خانۂ ذہن پر نمودار ہوتی ہے وہ ہے ”افطاری کی تیاری اور سحری کی بیداری“جب افقِ عالم پر رمضان کا چاند اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا تو جہاں پورا عالم دلہن کی مانند سج دھج کر تیار ہوجاتا،ہرطرف نور و نکہت کی ردا تن جاتی وہیں پہلے دن ہم بچے اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھرپی لے کر اپنی بیٹھک کے وسیع لان میں جا پہونچتے جہاں ہم اپنے بڑوں کی نگرانی میں بڑی سلیقگی کے ساتھ خودرو گھاس کی صفائی کرکے اسے ہموار بناتے،پھر جب عصر کی نماز پڑھ لی جاتی تو ہمارے کنبے ( فی الحال ہمارے کنبے میں تقریبا تیس گھرانے ہیں،اس وقت کم از کم پندرہ یا بیس تھے)کے سارے بچے اپنے گھروں سے چٹائی اور دری لے کر بیٹھک کے لان میں حاضر ہوجاتے اور ترتیب کے ساتھ ان کو بچھا ڈالتے،مغرب سے بیس منٹ پہلے افطاری کے سامان حاضر ہوجاتے،کسی کے گھر سے چنا آتا تو کسی کے یہاں سے آلو کے کتلے،کوئی ترئی کی سبزی لے آتا تو کوئی گوشت کا سالن۔
     اس وقت آج کی طرح فراوانیاں نہیں تھیں،آج تو اللہ کے فضل سے افطاری کی رکابیاں انواع و اقسام کے پھل سے پُر ہوا کرتی ہیں، مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت پھلوں کی صرف ایک دو قسم ہی موجود ہوا کرتی،کبھی وہ بھی نہیں،لے دے کر ہمارے پاس وہی دیہاتی افطاری چنا چوڑا،سبزی موڑی اور دال کی بڑی (جس کو ہم لوگ پیازو بڑی کہا کرتے تھے) پرمشتمل ہوا کرتی، مگر دلوں میں اخلاص اور ایثار کی جو شمع روشن تھی آج کے اس خوشحالی بھرے دور میں اس کی رمق تک بھی دم توڑ چکی ہے،ہمارے بڑے(جن میں میرے نانا،دادا اور چچا تایا کی ایک پوری کھیپ شامل ہے) بیٹھک میں صرف اسی وجہ سے افطاری لے کر جاتے تھے کہ اگر کسی راہ گیر پر نظر پڑے تو اسے بھی اپنے ساتھ شامل کرلیں،ہمارے بڑے تو مختصر افطاری کرکے مغرب کے لئے چلے جاتے اور مجھ جیسے ”روز جیسے والوں“ کی تو گویا لاٹری ہی نکل آتی،بڑوں کے ساتھ تو افطاری کرتے ہی اس پر بھی اگر جی نہ بھرتا تو گھر پر آکر پھر سے مابقیہ پر ٹوٹ پڑتے۔
    رمضان کے دنوں میں سب سے زیادہ سہانا سماں عصر کے بعد کا وقت لگتا،ادھر مسجد کے مناروں پر قاری حنیف صاحب مرحوم کی دل پذیر تقریر بج رہی ہوتی اور ادھر گھروں میں عورتیں کاموں میں مشغول ہوتیں،ان کے ہاتھ کام کرتے مگر کان تو قاری صاحب مرحوم کی تقریر کی طرف ہی لگے رہتے،اور جب قاری صاحب اپنی نرالی دھج میں قرآن کریم کی آیت ” اتقوا ربکم“ (ڈرو اپنے پروردگار سے) کی تفسیر کرتے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے،قاری صاحب کا بیان اتنا اثر انگیز،پُرکیف اور سحر طراز ہوتا کہ آج برسوں گزرجانے کے بعد بھی اس کے اثر سے خود کو نکال نہیں پایا ہوں۔
   بچپن کے زمانے میں ہماری ایک پرچون کی دوکان بھی ہوا کرتی تھی،جس کو میرے والد محترم چلایا کرتے تھے،میرے والد افطاری سے پندرہ بیس منٹ پہلے تک دوکان پر ہی بیٹھا کرتے تھے عصر کے بعد سے ہی ان کی زبان سے بکثرت ایک دعا ہمیں سننے کو ملتی تھی،میں نے اپنے والد محترم سے یہ دعا اتنی کثرت کے ساتھ سنی تھی کہ وہ مجھے اسی وقتِ بےشعوری میں ہی یاد ہوگئی تھی،آج جب اللہ کے فضل سے علم و آگہی کی کچھ شدبد ہے اس دعا کی معنویت کو سوچتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ میرے والد اس دعا کو اتنی کثرت سے کیوں پڑھا کرتے تھے،وہ دعا تھی”یا واسعَ الفضلِ اغفرلی “ کی، پھر جب افطاری سے فراغت ہوجاتی تو میرے والد اس دعا کو بھی ضرور پڑھتے تھے:ذھب الظمأُ وابتلتِ العروقُ و ثبت الاجرُ ان شاء اللہ “(پیاس بجھ گئی،رگیں تر ہوگئیں اور ان شاء اللہ اس کا ثواب بھی یقینی ہوگیا) اس کے بعد ہی وہ پلیٹ کے پانی کو پھینکتے۔
   بچپنے میں کیسی کیسی بچکانہ حرکتیں ہوجاتی ہیں، آج جب ان کو سوچتا ہوں تو بےساختہ کبھی ہونٹوں پر مسکان سج جاتی اور کبھی آنکھیں آنسوؤں میں تیر جاتی ہیں،میری ماں کو اللہ پاک نے پہلونٹی کے بیٹے کے بعد بیٹی سے نوازا تھا،پھر اس کے بعد میری ماں کی کوکھ نے ایک اور بیٹے کے بعد دوسری بیٹی کو جنم دیا تھا،مگر قدرت کی مرضی کے آگے کس کی چلتی ہے،جب میری ان دونوں بہنوں نے پاؤں چلنا شروع کیا تو کچھ عرصے کے بعد قضا نے یکے بعد دیگرے ان دونوں کو اپنی آغوش میں سمو لیا،اور قضا نے اپنا یہ کام فقط ١٣/ دنوں کے اندر کر دکھایا تھا،ایک ماں کے دل پر اس کا کیا گہرا اثر نقش ہوگا اس کا ادراک ہر صاحبِ دل شخص کرسکتا ہے،میری ماں اپنے آخری وقت تک اس حادثے کو بھلا نہ سکیں،اپنی دونوں بیٹیوں کے انتقال کے بعد وہ کافی اکیلی ہو گئیں،گھریلو کاموں کو وہ تنہا ہی انجام دیاکرتی تھیں، گرچہ ہم چار بھائیوں کے بعد ہماری دو بہنیں اور ہوئیں مگر یہ قصہ کافی بعد کا ہے،میری ماں دن بھر کولہو کے بیل کی طرح گھریلو کام میں جُتی رہتیں،حتی کہ دن ختم ہونے کو لگتا مگر ان کا کام کنارے پر نہیں پہونچتا،عصر کے بعد سورج کی روپہلی کرنیں بڑی سرعت کے ساتھ سیاہ ہونے لگتیں اس وقت بھی میری ماں گھر سے دور باڑی میں جاکر اوپلے تھاپنے میں لگی رہتیں،میں جو نادان تھا،سوچ و سمجھ سے یکسر عاری تھا،افطاری کی ٹینشن میں اپنی ماں کے سر پر سوار ہوجاتا اور انہیں سسست الفاظ میں کوسنے لگتا کہ:پورے آنگن کے لوگ افطاری کی تیاری میں مصروف ہیں،اور ابھی تک آپ کی ہانڈی میں آنچ بھی نہیں لگی ہے“ میرا تیور اتنا سخت ہوتا کہ ایک لمحے کو میری ماں کی ناک غصے سے تن جاتی،مگر ماں تو ماں ہوتی ہے،وہ جلدی سے اٹھتیں،چولہے میں آنچ لگاکر مجھے اس کے سامنے بٹھا دیتیں اور خود مصلی بچھاکر عصر کی نماز کے لئے کھڑی ہوجاتیں،میری ماں کے شاہکار ہاتھوں میں قدرت نے وہ برکت دی تھی کہ بہت تھوڑے وقت میں وہ مغرب سے پہلے افطاری کے سامان تیار کر ڈالتیں،آج بھی افطاری کے وقت نگاہیں ماں کے وجود کو ڈھونڈتی ہیں،یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی چوکھٹ کی اوٹ سے وہ مصلی لے کر نمودار ہوں گی مگر وہ تو اب اس راہ کی راہی بن چکی ہیں جس راہ سے واپسی محال ہے۔

               ؎  آتی ہی رہےگی تیرے انفاس کی خوشبو
                   گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہےگا

    سحری میں بیدار ہونا ہمارا سب سے محبوب مشغلہ ہوا کرتا،بچپن کی سحری کا منظر بھی کیا پُرنور منظر ہوتا،اوس آلود موسم،خوش گوار فضا، دسمبر کی شبنم میں بھیگی ہوئی رات،پچھلے پہر کے چاند کی چھٹکتی ہوئی مدھم چاندنی، کہروں کی چادر سے جھانکتی ستاروں کی لطیف روشنی، پرندوں کی دلآویز راگنی،کوئل کی کوک،قمریوں کی نواسنجی، مسجد کے مناروں سے آتی ”الصبح بدا من طلعتہ“ کی دلرُبا نغمگی،بادِ نسیم کے خنک جھونکے،اور سب سے زیادہ ہم بچوں کے شوخ ہنگامے  سحری کے مزے کو دوبالا کردیتے،قاری حنیف صاحب مرحوم کا بیان سحری کے وقت کی آمد کا اشتہار ہوتا، جونہی گھڑی دو بجے کا راگ الاپتی ہماری مسجد کے متولی (اس وقت ہماری مسجد کے متولی ہمارے مامو ماسٹر ناظم صاحب ہوا کرتے،جن کی کل کائنات ہی مسجد تھی،رمضان کا چاند نکلتے ہی وہ مسجد کی اچھی طرح صفائی کرتے اور ہر وقت مسجد کے کاموں میں ہی لگے رہتے) مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر قاری حنیف صاحب مرحوم کی تقریر چالو کردیتے، (عرصۂ دراز سے ہماری مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پر بیانات کا سلسلہ بند ہوچکا ہے) گھر کی عورتیں اس آواز پر ہی بیدار ہوجاتیں،سحری کا مزہ تو ہم نے اسی زمانے میں پایا ہے،گھر کی عورتیں بیدار ہوتے ہی چولہے پر دیگیں چڑھا دیتیں،تازہ کھانا تیار کرتیں،پھر جب کھانا تیار ہوجاتا تو ہمیں جگاتیں،ہمارے منہ ہاتھ دھوتےگرما گرم کھانے، بیگن کی چٹنی،آلو کے بھرتے،مزے دار کوفتے،سیخ کباب اور گوشت کی بریانی سے سجا خوان تیار ہوچکا ہوتا،ہم جی بھر کر سحری کھاتے،اور اس پورا دن تو ہمارے گھروں میں ہنگامہ کھڑا رہتا جب ہمارے کہنے کے بعد بھی ہمیں سحری میں بیدار نہیں کیا جاتا۔
   آہ آج جب اپنے بچپن کی سحری کو یاد کرتا ہوں تو آنکھیں اپنی نانی کی سادگی اور بھولپن کو سوچ کر بھیگ جاتی ہیں،خدا مغفرت کرے میری نانی کی،میری نانی کو بیڑی کے کش لگانے کی عادت تھی،سحری سے فارغ ہوکر ہاتھ میں بیڑی میں پکڑے وہ اذان کے انتظار میں بیٹھی رہتیں، جب مسجد کے مناروں سے اذان کی صدائیں سماعت سے ٹکرانا شروع ہوتیں تو ہماری نانی اپنے ہاتھ میں پکڑے بیڑی کو لیمپ تک لے جاتیں اور جلدی جلدی کش لگانا شروع کردیتیں،ہم شرارت سے ان کے ہاتھ سے بیڑی کو چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے:اب تو اذان ہو رہی ہے،ابھی بیڑی پیوگی تو روزہ نہیں ہوگا“یہ سن کر پہلے تو وہ جھلاتیں،پھر ہمیں سمجھاتی ہوئی کہتیں: ابھی تو اذان شروع ہوئی ہے،ختم ہوگی تب نا“اور تب تک کش لگاتی رہتیں جب تک اذان پوری نہ ہوجاتی،بیڑی میں ان کے کش لگانے کا انداز بھی اتنا متوازن ہوتا کہ ادھر اذان پوری ہوتی اور ادھر ان کی بیڑی بھی اپنے آخری سرا تک جا پہونچتی،میری نانی کی اس سادگی بھرے چہرے پر آج ایک شعر یاد آرہا ہے۔

                ؎ بڑی سیدھی سادی بڑی بھولی بھالی
کوئی دیکھے اس وقت چہرا تمہارا

     بچپن کے رمضان کی یادوں میں سے ایک یاد تراویح کی بھی ہے، تراویح کے لفظ سے میرے کان اسی سنِ غیرشعوری میں ہی آشنا ہوئے ہیں،اس زمانے میں ہماری مسجد میں ہمارے ایک قریبی رشتے کے مامو جناب مولانا رضوان صاحب قاسمی ختم تراویح سنانے کے لئے آیا کرتے تھے،اور دس دن میں سنا کر چلے جاتے تھے،ہمارے گاؤں میں اسی زمانے سے عورتوں کا مسجد سے باہر کھڑے ہوکر قرآن سننے کا رواج چلا آرہا ہے،یہ رواج آج بھی ہے مگر نسبتا کم ہوگیا ہے،آج سے آٹھ دس سال پہلے تک یہ رواج تھا کہ مسجد سے باہر کی سڑک عورتوں سے بھر جایا کرتی تھیں،اس زمانے میں جب کہ ہم مسجد کی دنیا سے کافی دور تھے ہماری عورتیں جب گھر میں جاکر تراویح کا تذکرہ کرتی تھیں تو اس کا نام سننے کے بعد اس کے حوالے سے میرے ذہن میں تراویح کا یہ تصور بنتا تھا کہ شاید قرآنِ کریم کو لیکر لوگ بیٹھ جاتے ہوں گے ان میں سے کوئی ایک دیکھ کر پڑھتا ہوگا اور باقی لوگ اس کے گرد بیٹھ کر سنتے ہوں گے،کچھ عرصے کے بعد تراویح کی حقیقت معلوم ہوئی۔
     تراویح بھی ہمارے لئے بچپن ہی سے دلچسپی کا سامان فراہم کرتی رہی ہے،جب ہم سن شعور کو پہونچے تو رمضان کے دنوں میں مسجد جانے لگے،جب تراویح کا وقت ہوتا تو ہم بچے بھی بڑے شوق و ذوق کے ساتھ تراویح میں شریک ہونے لگے، کچھ رکعات بیٹھ کر کچھ کھڑے ہوکر،کچھ لڑ جھگڑ کر اور کچھ نیند کی نذر کرکے اسے ضرور پوری کرتے۔
   یہ شوق اس وقت فراواں ہوگیا جب میں نے کچھ پارے حفظ کر لئے اب تو مجھے تراویح میں خوب مزے آنے لگے،جب پہلی بار میں نے تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب کو لقمہ دیا تھا تو پورے گاؤں میں ہلچل مچ گئی تھی کہ آج فلاں کے چھوٹے سے بیٹے نے حافظ صاحب کی غلطی پکڑلی،پھر کچھ عرصہ کے بعد اللہ نے یہ توفیق دی کہ اسی تراویح کو سنانے کے لئے محراب میں جاکھڑا ہوا،بحمداللہ اس ناچیز کو اپنے گاؤں کے حفاظ میں سب سے پہلے اپنی مسجد میں تراویح سنانے کا شرف حاصل ہے۔
  تراویح کے بعد جب ہم گھروں کو لوٹتے اس وقت میری ماں اپنے سارے کاموں کو نمٹاکر لالٹین کی مدھم سی روشنی میں نیت باندھے تراویح میں مصروف ہوتیں،ہماری آہٹ پر وہ سلام پھیرنے کے بعد ہمارے سامنے کھانا لاکر رکھتیں،ہم کھانے میں مصروف ہوتے اور وہ پھر سے تراویح میں لگ جاتیں، بعد میں جو کچھ بچ رہتا کھاکر سو جاتیں،صبح کو جلدی سے اٹھتیں، تہجد کی نماز ادا کرتیں،کھانا پکاکر یا گرم کرکے ہمارے سامنے رکھتیں،ساتھ میں سحری کھاتیں اور پھر نماز کے بعد تلاوت میں مشغول ہوجاتیں،یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔
     پھر جب ہم اپنے بچپنے کے ایک حصے کو پیچھے چھوڑ کر دوسرے حصے میں داخل ہوئے اور ہمیں روزہ کی حقیقت اور اس کی معنویت سے آگہی ملی تو ہم بچوں میں روزہ رکھنے کا مقابلہ شروع ہوگیا،سحری کے بعد ہمارا سونا موقوف ہوگیا،طلوع آفتاب تک فضول گوئیوں اور بیہودہ باتوں میں مشغول رہتے،پھر جب صبح کی روشنی کائنات کی تھالی پرپھیلتی ہم بستر کو چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے جا ملتے اور سب اکٹھے ہوکر اپنے روزوں کا حساب کرتے،انہیں انگلیوں میں گنتے،ایک دوسرے سے پوچھتے ”آج تم روزے سے ہو یا روز جیسے“ اور ہمارا یہ حساب عید کے چاند کے طلوع ہونے تک جاری رہتا،ہائے کیا دن تھے وہ بھی،آج ہماری جگہ ہمارے بچوں نے لے لی ہے،ہمارے بچے بھی آج وہی کر رہے ہیں جو کبھی ہم کیا کرتے تھے اور آج ہم تماشائی بنے ان کو نہارتے اور اپنی یادوں پر صفِ ماتم بچھاتے ہیں۔

               ؎  اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
              کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

     عید کے دن کی خوشی بھی کافی دیدنی ہوتی، عید کی صبح کی ہلچل اور رونق آج بھی لوحِ دل پر مرتسم ہیں،ہم بچوں کا تو پوچھنا ہی کیا، بڑے نہانے دھونے میں لگے ہیں،عورتیں دھان کی روٹی اور سوئیاں تیار کرنے میں مصروف ہیں اور ہم بچے پوری برادری میں اپنے معمولی سے کپڑوں کی نمائش کرتے پھر رہے ہیں،اس وقت تنگ دستی کا زمانہ تھا،دلی پنجاب کی آمدنی سے بستیوں کے آباد ہونے کا رواج کافی کم تھا اس لئے لوگ بقدر ضرورت ہی عید میں کپڑے بنوایا کرتے تھے، اگرچہ اس وقت آج کی طرح عید منانے کے لئے لوگوں کے پاس زرق برق لباس نہیں ہوا کرتے تھے مگر ان کے دل اجلے ضرور ہوا کرتےتھے،معمولی قسم کی لٹھے دارقمیص اور کھدری لنگی پہن کر جب وہ تکبیر تشریق کے ورد کے ساتھ عیدگاہ کے لئے نکلتے تو یوں لگتا جیسے فرشتوں کی جماعت مجسم شکل میں زمین پر اتر پڑی ہے۔
     الغرض رمضان کا مبارک مہینہ آج بھی آتا ہے اور اس وقت تک اپنے تمام انوار و برکات کے ساتھ آتا رہےگا جب تک یہ خورشیدِ مبیں عالم کے افق پر اپنا نور بکھیرتا رہےگا،مگر آج کے رمضان اور ہمارے بچپنے کے رمضان میں ہمیں نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے شاید اس لئے کہ بچپنے کا چشمہ ہماری آنکھوں سے اتر چکا ہے،اے کاش بچپن کے وہ دن پھر سے لوٹ آتے تاکہ ہم بےفکری کے ساتھ رمضان کے دنوں کے مزے لوٹا کرتے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: