نئی نسل کو ادبی ذوق کے لئے اچھے مصنفین کی کتابوں کامطالعہ کرنا چاہئے: مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
پٹنہ/سیل رواں
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے’’ تذکرہ علمائے بہار‘‘ لکھ کر بڑا کارنامہ انجام دیا ہے،یہ عظیم شاہکار ہے ،یہ کتاب ریفرنس اور حوالہ کے طور کام آئے گی،مولانا نے بڑی محنت سے یہ کتاب تیار کی ہے، ظاہر ہے ۲۰۰؍سے زائد افراد کی تفصیلات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے مولانا کو بڑی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نوازا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مشکل کاموں کو بھی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ان خیالات کا اظہارمدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے پرنسپل مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری ندوی نے کیا۔اتوار کو وہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے پرنسپل چیمبر میں ملک کے معروف عالم دین مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کی کتاب ’’تذکرہ علمائے بہار ‘‘کی تیسری جلد کی رونمائی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے مولانا کو کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا باکمال شخصیت کے مالک ہیں، مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے، ان کاکام نہایت معیاری اور تحقیقی ہوتا ہے۔
اس موقع پر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم مولانا مفتی ثنا الہدیٰ قاسمی نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تذکرہ کوئی تحقیق نہیں ہے، لیکن تذکرے کو بھی تحقیق کی وادی سے گزارا گیا ہے،مولاناڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کی شخصیت ہمہ جہت ہے، متنوع موضوعات پرپوری بصیرت اور جرأت کے ساتھ لکھتے ہیں اور مختلف جہتوں سے دینی وملی خدمت بھی انجام دیتے رہتے ہیں، ان کی فعالیت نوجوانوں کو بھی حوصلہ دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا کی پہلے بھی دو جلدیں آچکی ہیں ،یہ بہت بڑا کام ہے اور یہ کہنا چاہئے کہ جوٹیم ورک ہے،اس کو مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے اس عمر میں اس پروجیکٹ کو لے کر چل رہے ہیں،یہ بہت بڑی بات ہے،اس کے باوجودہم تمام لوگوں کے لئے مولانا کی ذات مرجع ہے اور بہت سارے علمی مسائل میں ہم لوگ ان سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔مولانا کی شخصیت علمی اعتبار سے انتہائی مضبوط ، مستحکم ہے۔انہوں نے کہا کہ تذکرہ ہو، شاعری ہو،تاریخ ہو، مدارس کا معاملہ ہو ، سیاسی اور سماجی موضوعات ہوں، سب پر بےلاگ اور بےباک لکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا کا سایہ ہم لوگوں پر دراز کرے اور یونہی علمی کام کرتے رہیں۔
مشہور ادیب و قلمکار ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کہا کہ مولانا نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ ایک پوری ٹیم کے کرنے کا تھا ،جسے انہوں نے تنہا انجام دیا ہے، ان کی شخصیت اپنے آپ میں ایک انجمن کی سی ہے، یہ جو بھی کام کرتے ہیں وہ نقش اولین ہوتا ہے، اس موضوع پر پہلے سے کوئی کتاب موجود نہیں ہوتی ہے، اور یہ کام نسبتاً مشکل ہوتا ہے۔ مولانا پروفیسر شکیل قاسمی اورینٹل کالج، پٹنہ نے کہا کہ مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نے مصروفیتوں کے باوجود بہارکے علمائے کرام کا تذکرہ تین جلدوں میں لکھا ہے،یہ کام بہت بڑا ہے،جس طرح مولانا عبد الحی حسنی ندوی نے اپنے علمائے کرام کا تذکرہ آٹھ جلدوں میں نزہۃ الخواطر کے نام سے کیا ہےاور آج وہ ریفرنس کے طور کام آرہی ہے، اسی طرح مولانا کی یہ کتاب بھی ریفرنس کے طور پر کام آئے گی، ہمیں اس کی مزید جلدوں کا انتظار ہے۔بہار پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین امتیاز احمد کریمی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ جن کے ہاتھ میں قلم ہو وہ ہمیشہ جوان ہوتا ہے، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی دولت سے نواز ہے، جس کا وہ بہت بہتر مصرف لیتے ہیں اور علمی تحقیقی تصنیفات سے لوگوں کو استفادہ کا موقع عنایت فرماتے رہتے ہیں، انہوں تذکرہ علمائے بہار لکھ کر تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ علمائے کرام بہت تحقیقی کام بہت کم ہوا ہے، اس لئے یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بہار اقلیتی کمیشن کے چیئرمین پروفیسر یونس حکیم نے کہا کہ تصنیف وتالیف کا کام بہت مشکل ہے، بڑی محنت اور جدو جہد کے بعد کوئی کتاب لکھتا ہے مولانا ابوالکلام اس وادی کے شہسوار ہیں، انہوں نے علماء بہار کا تذکرہ لکھ کر اس قرض کو پورا کیا ہے جو بہار کے اہل قلم کے سر پر تھا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے پہلے انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا، پھر قرآن شریف کی تفسیر کی ،اس میں بھی ان کا انداز منفرد ہے، ترجمہ وتفسیر عام فہم ہے، جو عوام وخواص کے لئے مفید ہے۔
انوارالحسن وسطوی نے کہا کہ یہ کتاب بہت جامع ہے اور جانبداری سے اوپر اٹھ کر لکھی گئی ہے، کسی مسلک کے لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ تقریب کی رونمائی کی نظامت مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی کی، انہوں نے اپنے ابتدائی گفتگو میں کتاب اور صاحب کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب تذکرہ نویسی کے باب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔آخر میں تقریب کے مہمان خصوصی اور صاحب کتاب مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے کہا کہ آپ حضرات نے جس اندازمیں کتاب کو پسند کیا ،اس کے لئے آپ تمام حضرات کا شکریہ اداکرتا ہوں، ساتھ ہی آپ لوگوں نے میرے سلسلے میں جو بات کہی ہے، یہ آپ کا حسن ظن ہے۔ مولانا نے کہا کہ میں نے تذکرہ علماء بہار لکھا، اس کے بعد تحریک آزادی میں علمائے کرام کا حصہ لکھا ،اس کے بعد شاعری میں علمائے کرام حصہ کے عنوان سے لکھا، ان میں وہ لوگ گوشۂ گمنامی میں تھے، ان کو علمی بنیاد پر روشناس کیا۔انہوں نے نئی نسل کی رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ادبی ذوق کے لئے اچھے مصنفین کی کتابوں کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہئے اوراچھے اسلوب میں لکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تقریب کا آغاز مولانا قاری شمیم اختر ندوی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور عمران احمد نے نعت پاک پیش کیا۔ اس موقع پر مولانا کلیم اختر، ڈاکٹر شفاعت کری، ذاکر حسین، ڈاکٹر شاہد وصی قاسمی، ڈاکٹر محفوظ الرحمٰن قاسمی، مولانا آفتاب عالم قاسمی، ماسٹر عظیم انصاری،رئیس الاعظم، پروفیسر عبدالباسط حمیدی،ڈاکٹر نجم الحسن،ڈاکٹر تحسین الزماں کے علاوہ اہل علم و دانش کی اچھی تعداد موجود تھی۔