محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
______________________
تعارف:
خانقاہ کا لفظ فارسی زبان سے لیا گیا ہے، جہاں "خان” کا مطلب ہے "مکان” اور "قاہ” کا مطلب ہے "عبادت”۔ یوں خانقاہ کا مفہوم ہے "عبادت کا مکان”۔ خانقاہیں وہ روحانی تربیت گاہیں ہیں جہاں روحانی اصلاح، عبادت، اور ذکر اللہ کے ذریعے سے دل اور روح کی تربیت کی جاتی ہے۔ یہ مقامات وہ مراکز ہیں جہاں صوفیائے کرام اپنی روحانی عبادات، ریاضات، اور تربیت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
خانقاہ کی ابتدا:
اسلامی تاریخ میں خانقاہ کی ابتدا کا تعلق براہِ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے ہے، جن میں اصحابِ صفہ نمایاں ہیں۔ اصحابِ صفہ وہ مقدس گروہ تھا جس کے اراکین نے دنیاوی لذتوں کو ترک کرکے اپنے آپ کو عبادت اور ذکر الٰہی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ان کی رہنمائی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کی۔ ان کی زندگی میں خانقاہی طرز کی جھلکیاں ملتی ہیں۔
خانقاہ کی اصطلاحی تعریف:
خانقاہ وہ مقام ہے جہاں درویشوں اور سالکین کا مجمع ہوتا ہے اور جہاں وہ دنیا سے کنارہ کش ہو کر عبادت اور ریاضت کرتے ہیں۔ یہاں ایک کامل پیر یا شیخ موجود ہوتا ہے جو سالکین کی رہنمائی کرتا ہے اور ان کی روحانی تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ خانقاہ میں درگاہ، مسجد، اور دیگر عبادت گاہیں بھی شامل ہو سکتی ہیں، لیکن ہر درگاہ میں خانقاہ کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
تصوف اور خانقاہ:
تصوف کو اسلامی روحانیات کا ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بندے کو اللہ کے قریب کرنا اور روحانی کمال کی منزل تک پہنچانا ہے۔ خانقاہیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جہاں تصوف کے اصولوں اور روحانی تربیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ حدیثِ جبریل میں مذکور احسان کا تصور تصوف کی بنیاد ہے، اور خانقاہیں اسی احسان کے تصور کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔
قرآن مجید میں خانقاہ کا ذکر:
قرآن مجید میں خانقاہوں کے ذکر کا مفہوم سورۂ نور کی آیات میں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
> "فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ… (سورۃ النور: 36-37)”
اس آیت میں "بیوت” یعنی گھر سے مراد وہ خانقاہیں ہیں جہاں اللہ کا ذکر بلند کیا جاتا اور عبادت کی جاتی ہے۔ یہ گھر وہ مقام ہیں جہاں اللہ کے ولی اور درویش اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔
خانقاہوں کے آداب اور اصول:
خانقاہ میں رہنے والے سالکین اور درویشوں کے لیے کچھ آداب و اصول ہوتے ہیں جو ان کی روحانی ترقی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں:
-
1. عبادت اور ذکر الٰہی:
خانقاہ میں ہر وقت اللہ کا ذکر اور عبادت ہوتی ہے۔ سالکین کو نماز، ذکر، اور دعا میں مشغول رہنا ضروری ہوتا ہے۔
-
2. شیخ کی اطاعت:
خانقاہ کا نظام شیخ کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ شیخ کی اطاعت اور اس کے احکامات پر عمل کرنا سالکین کے لیے لازم ہوتا ہے۔
-
3. سادگی اور تواضع:
خانقاہ میں سادگی اور تواضع کو اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیاوی چیزوں سے دل لگانا خانقاہ کے اصولوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
-
4. اخوت اور مساوات:
خانقاہ میں رہنے والے تمام افراد کے درمیان مساوات اور اخوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کی نسلی، مذہبی، یا طبقاتی تفریق کو پسند نہیں کیا جاتا اور تمام افراد کو ایک ہی صف میں کھڑا ہونے کی تربیت دی جاتی ہے۔
خانقاہوں کا مقصد:
خانقاہوں کا بنیادی مقصد سالکین کی روحانی تربیت اور اصلاح کرنا ہے۔ یہ مقامات بندے کو اللہ کے قریب لانے، روحانی کمال حاصل کرنے، اور نفس کی تطہیر کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ خانقاہ میں رہنے والے سالکین اپنی زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور شیخ کی رہنمائی میں اپنی روحانی ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں خانقاہوں کی زبوں حالی:
موجودہ دور میں خانقاہوں کی زبوں حالی ایک اہم اور افسوسناک مسئلہ ہے۔ خانقاہیں، جو کبھی روحانی تربیت اور اخلاقی اصلاح کے مراکز ہوا کرتی تھیں، اب بہت سی جگہوں پر اپنی اصل حیثیت کھو چکی ہیں۔ جدیدیت اور مادی ترقی کی دوڑ میں، خانقاہوں کی روایتی اہمیت اور ان کے کردار کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
کئی خانقاہیں اب محض ظاہری عمارتیں بن کر رہ گئی ہیں جہاں روحانی تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ اکثر جگہوں پر خانقاہی نظام اب صرف رسومات اور تقریبات تک محدود ہو گیا ہے، جس میں روحانیت اور تصوف کی اصل تعلیمات کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ، خانقاہوں میں جو تعلیم دی جاتی تھی، وہ اب بہت سے مقامات پر نظرانداز کر دی گئی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کا خانقاہوں سے رشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ خانقاہوں میں موروثی نظام نے جنم لیا ہے، جہاں علم و روحانیت کی بجائے نسبی تعلقات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس سے خانقاہوں کی اصل روحانی طاقت کمزور ہو گئی ہے اور ان کی افادیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
یہ زبوں حالی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ خانقاہوں کی اصل روحانی طاقت کو بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دوبارہ معاشرتی اصلاح اور روحانی تربیت کے مراکز بن سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خانقاہوں میں تعلیم و تربیت کا وہی نظام دوبارہ نافذ کیا جائے جو ان کے ابتدائی دور میں ہوا کرتا تھا، اور خانقاہوں کو دوبارہ ان کی اصل روحانی طاقت اور معاشرتی کردار کی طرف لایا جائے۔