سپریم کورٹ آف انڈیا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے 2016 کے نوٹ بندی والے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک درست فیصلہ تھا۔ اب اس فیصلہ کو غلط نہیں کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے مقاصد کی حصولیابی پر بحث کی جاسکتی ہے۔کیونکہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مرکزکو ریزرو بینک آف انڈیا کے مشورے سے ہی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جواب میں کہا گیا کہ مرکز اور آربی آئی میں چھ ماہ تک اس سلسلہ میں باہمی گفت و شنید ہوتی رہی تھی۔اوریہ قدم مشاورت کے بعد دہی اٹھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ نوٹ بندی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔درخواست گذاروں میں مشہور وکیل پی چدمبرم سرفہرست تھے۔چدمبرم نے 500 اور 1000 کے نوٹوں کے ہٹانے کے فیصلہ کو پوری طرح ناقص قرار دیا تھا۔انہوں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ حکومت تنہا اپنے بل بوتے پر لیگل ٹینڈر سے متعلق کسی بھی تجویز پر عمل نہیں کرسکتی ، وہ آربی آئی کے سنٹرل بورڈ کی سفارش پر ہی ایسا کرسکتی ہے۔مرکز نے اپنے جوابی حلف نامہ میں کہا ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ کافی سوچ سمجھ کر لیا گیا تھا، یہ فیصلہ جعلی کرنسی، دہشت گردی میں مالی معاونت، کالا دھن اور ٹیکس چوری سے نمٹنے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ تھا ۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں کہ نوٹ بندی کا مقصد حاصل ہوا یا نہیں۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے حکم کو پڑھتے ہوئئے جسٹس بی آر گوائی نے کہا’’ معاشی پالیسی کے معاملات میں سوج بوجھ اور بہت زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جسٹس بی وی ناگ رتھنا نے اختلاف کرتے ہوئے مرکز کی طرف سے شروع کی گئ نوٹ بندی کو ’’ بگاڑ والا اور غیرقانونی‘’ قدم قرار دیا اور کہا کہ اس اقدام کو پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے عمل میں لایا جاسکتا تھا۔