کچھ نیاز جیراجپوری کے بارے میں

از:- معصوم مرادآبادی

آج مشہور شاعر نیاز جیراجپوری کا یوم پیدائش ہے۔وہ21/مئی 1960کو جیراج پور (اعظم گڑھ)کی مردم خیز سرزمین میں پیدا ہوئے تھے اور اب تک عمر کی 65 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ دراصل ان کے ’برتھ ڈے‘ کی اطلاع نے ہی مجھے یہ چند سطریں لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
یوں تو پچھلے دنوں یکے بعد دیگرے انھوں نے مجھے اپنے دوشعری مجموعے بھیجے تھے۔ ان سے تعلق خاطر کی بنا پر یہ میری ذمہ داری تھی کہ میں ان پر کچھ لکھوں۔ان میں پہلے مجموعہ کا نام ’باغ‘ ہے اور دوسرے مجموعے کا ’ تالاب‘۔ ’باغ‘ نیاز جیراجپوری کی تازہ کار غزلوں کا مجموعہ ہے جبکہ ’تالاب‘ ان کی نظموں کا۔ان دونوں ہی مجموعوں کے عنوانات سے ان کی قصباتی زندگی کی جھلک ملتی ہے۔وہ سادہ طبیعت کے انسان ہیں اور تصنع یا بناوٹ ان میں قطعی نہیں ہے۔ نہ ہی ان میں ان شاعروں جیسی اکڑ ہے جو دوچار غزلوں کی مقبولیت کے بعد زمین سے دور ہوجاتے ہیں۔
نیاز جیراجپوری نے شاعری 19 سال کی عمر میں ہی شروع کردی تھی۔ وہ پہلے نیاز احمد تھے، پھر نیازاعظمی ہوئے اور پھر اعظمیوں کی بھیڑ میں گم ہوجانے کے خوف سے نیاز جیراجپوری ہوگئے۔ ان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ وہ جب علی گڑھ آئے تو یہاں بیدارمغز نوجوان شاعروں کی ایک پوری کھیپ موجود تھی، جن میں آشفتہ چنگیزی،شہپر رسول، اسعد بدایونی،عبید صدیقی، فرحت احساس اور مہتاب حیدر نقوی جیسے نام شامل تھے۔نیاز جیراجپوری کو ان سے استفادہ کا موقع ملا۔ وہ اختر انصاری کی محفلوں میں بھی شریک رہے ۔
نیازجیراجپوری کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ان کا کلام ابتدا میں ماہنامہ ’شمع‘ جیسے فلمی اور ادبی میگزین میں شائع ہوا اور ’شمع‘ کے توسط سے ہی ان کی رسائی فلمی دنیا تک ہوئی، لیکن گھریلو وجوہات کی وجہ سے وہ بمبئی میں زیادہ ٹھہرنہیں سکے اور دوچار فلموں میں نغمہ نگاری کے بعد وطن واپس آگئے اور یہاں سے ایک ادبی رسالہ ’شاندار‘ جاری کیا، جو واقعی شاندار تھا۔ جب تک یہ رسالہ پابندی سے شائع ہوتا رہا، وہ مجھے ڈاک سے بھیجتے رہے۔درمیان میں کافی عرصہ ایسا گزرا کہ ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا، البتہ ان کا کلام ادبی رسائل میں پڑھ کر محظوظ ہوتارہا۔ اب جو یکے بعد دیگرے ان کے دومجموعوں نے میرے ذہن پردستک دی تو میرا کچھ لکھنے کو جی چاہامگر میری مجبوری ملاحظہ فرمائیں۔مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ شاعری کے معاملے میں میرا ہاتھ شاہد احمد دہلوی کی طرح تنگ ہے۔جب بھی شاعری کی کوئی کتاب میرے پاس آتی ہے تو میں اس پر قلم اٹھانے سے بچتا ہوں، کیونکہ میں شاعری کا پارکھ نہیں ہوں۔
میں بنیادی طورپر نثر کا آدمی ہوں۔ اسی میں پوری عمر بسر کی ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاعری میری کمزوری ہے اور میرا پہلا شوق بھی یہی تھا، لیکن زندگی مجھے صحافت کی طرف لے گئی اور میں نے خود کو اسی میں کھپا دیا۔ صحافت کے راستے ہی ادب کی راہداری میں داخل ہوا ہوں ۔
نثر میں لاتعداد تحریریں لکھنے کے باوجود میراغالب رجحاں آج بھی شاعری کی طرف ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے لاتعداد اشعار یاد ہیں اور آج بھی کوئی انوکھا شعر سامنے آتا ہے تو اسے محفوظ کئے بغیر نہیں رہتا۔ لیکن شعری مجموعوں پر لکھنے سے اس لیے گریز کرتا ہوں کہ یہ میرا میدان نہیں ہے۔ نیاز جیراجپوری کی کتابوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ حالانکہ وہ میرے بہت پرانے شناسا ہیں۔ لگ بھگ چالیس برس پرانے۔ ان سے میری پہلی ملاقات نوّے کی دہائی کے وسط میں علی گڑھ میں اس وقت ہوئی تھی جب میں رپورٹنگ کے سلسلے میں وہاں گیا تھا۔ اچانک ایک موڑ پر نیاز مجھے مل گئے۔ وہ اس وقت میری طرح نوجوان تھے ۔ بڑی محبت سے اپنے ہاسٹل لے جاکر خاطر مدارات کی۔ اس وقت ان کی پہچان ان کے بالوں اور مونچھوں کا خاص انداز تھا اور ان میں ایک کشش بھی تھی،جو اس دور کے نوجوانوں کی ایک شناخت ہوا کرتی تھی۔مگر یہ دونوں ہی اب بڑھاپے کی نذر ہواچاہتی ہیں۔
نیاز جیراجپوری کے بارے میں افسوس ناک خبر یہ ہے کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے تھائرائڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ مجھے جب ان کی بیماری کا علم ہوا تو ان پر کچھ نہ کچھ لکھنے کو جی چاہا مگر ہربار کسی دوسری مصروفیت نے گھیر لیا اور میں ان پر کچھ نہیں لکھ سکا۔ آج ان کے یوم پیدائش پر میں نے یہ قصد کیا کہ مختصر ہی سہی کچھ لکھوں گا ضرور۔شاید یہ سطریں ان کے تعارف کے لیے ناکافی ہوں، مگر میں نے ایک قرض اتارنے کے لیے یہ لکھا ہے۔
حالات زندگی
نیاز جیراجپوری کا ادبی سفر کوئی پینتالیس برسوں پر محیط ہے۔ان کا اصل نام نیاز احمد اور قلمی نام نیاز جیراجپوری ہے۔ابتدائی تعلیم جیراجپور گاؤں میں ہوئی، ثانوی تعلیم شبلی کالج اعظم گڑھ میں پائی ۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے آئے اور وہاں سے ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ان کے والد عظیم اللہ عبد الرشید شعر و شاعری کے دلدادہ تھے -گھریلو ماحول شاعری آشنا تھا جس کے اثرات ان کے ذہن و دل پر مرتب ہوئے ۔شاعری کا آغاز علی گڑھ طالب علمی کے زمانے میں کیا اور اپنی پہلی غزل 1979 میں کہی۔اسی زمانے میں ہال میگزین "مسعود” کے مدیر بنائے گئے تو شاعری کے ساتھ ساتھ ادبی صحافت سے بھی وابستگی شروع ہوگئی ۔پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے کہانیوں کے مقابلے میں اپنی کہانی ‘مسافر کی دستک’ پر پہلا انعام حاصل کرکے افسانہ نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے ۔ان کی متعدد تخلیقات ماہنامہ "شمع” میں شائع ہوئیں جس سے انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی ۔معروف فلمی اداکار اور پروڈیوسر منوج کمار سے ان کے تعلقات رہے ہیں اور ان ہی کی ایما پر وہ ممبئ گئے اور فلمی دنیا سے بطور نغمہ نگار وابستگی اختیار کی مگر متعدد گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے واپس وطن لوٹ گئے۔نومبر2003 سے انہوں نے اعظم گڑھ سے ایک رسالہ ماہنامہ "شاندار” کا اجراء کیا ۔انہوں نے "شاندار "میں کئی اہم شاعروں اور ادیبوں کے خصوصی گوشے شائع کئے جو ادبی حلقوں میں پسند کئے گئے ۔ شاندار آج بھی نکل رہا ہے لیکن تواتر سے نہیں ۔ میں اس موقع پر ان کی مکمل صحت یابی کے لئے دعا گو ہوں ۔
چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں

ریت پر پانی پانی وہ لکھتا رہا
گھیر کر اسکو پیاسے کھڑے تھے کئی
آشنا اس کی چمک سے سارا عالم ہے نیاز
خاک اعظم گڑھ کا ہر ذرہ ستارہ ہے
ذہن و دل کو کھنگال کر دیکھا
کچھ تمہارے سوا ملا ہی نہیں
ہم کو جینا سکھا رہا تھا نیاز
لڑ رہا تھا جو دیا آندھی سے

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔