سنبھل میں مسلمانوں کے خلاف پولیس کا ظالمانہ رویہ

وطن عزیز میں مسلمانوں کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، جان،مال اور آبرو حملوں کی زد میں ہیں،مساجد کی بے حرمتی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔آر ایس ایس اور ہندوتوا کی سوچ پر مبنی مودی حکومت کے زیر سایہ مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔

سنبھل میں مسلمانوں کے خلاف پولیس کا ظالمانہ رویہ Read More »

الیکشن کے نتائج اور مذہبی طبقہ کا رویہ

جب سے شعور کی انکھیں کھولی ہیں تقریبا 30 سالوں سے یہ دیکھتے ہیں آیا ہوں کہ جب بھی کوئی انتخاب ہوتا ہے تو اکثر مذہبی جماعت اپنے درمیان غور و فکر کرنے کے بعد اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حمایت میں ایک بیان جاری کر دیتے ہیں اور اپنی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان امیدواروں کو ووٹ دے کر انہیں جتائیں. اس طرح کی اپیل جاری کرنے کے پیچھے اصل منشا یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح سے فرقہ پرست امیدواروں کو اور فرقہ پرست جماعتوں کو شکست دی جا سکے.

الیکشن کے نتائج اور مذہبی طبقہ کا رویہ Read More »

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

یہ مدرسہ یعنی معہد سیدنا ابوبکر صدیقؓ بلیا منورا، نزد کانکی کشن گنج، بہار جس کے اجلاسِ دستار بندی میں بطور ناظم میری حاضری ہوئی تھی ضلع کشن گنج کے ایک سرحدی گاؤں کانکی ( مغربی بنگال)سے غالبا دو تین کیلو میٹر پہلے بلیا ( منورا) میں واقع ہے،ادارے کے روحِ رواں ایک باصلاحیت عالمِ دین،خوش اخلاق و ملنسار،علم دوست و قدر شناس انسان اور محنت و ریاضت جیسی اعلی صفات سے متصف ہستی حضرت اقدس مولانا منظر عقیل صاحب ندوی مدظلہ العالی کےبیان کے مطابق اس ادارے کی بنیاد 2005؁ء میں رکھی گئی،اس کے بعد اس میں تقریبا چھ سالوں تک مکتب کا نظام چلتا رہا،2011؁ء میں اس میں باضابطہ ہاسٹل کا نظام شروع کیا گیا۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ Read More »

شبینہ جلسوں کا رواج اور اس کی حقیقت

شبینہ جلسے، یعنی رات بھر جاری رہنے والے اجتماعات، ہندوستان اور نیپال کے چند علاقوں میں مدارس کے چندے کے لئے منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان جلسوں کا بنیادی مقصد بظاہر دینی شعور پیدا کرنا اور مدارس کے لئے مالی امداد جمع کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک عام روایت بن چکی ہے، جہاں دینی تقاریر اور نعت خوانی کے ذریعے عوام کو متأثر کیا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چندہ دیں۔

شبینہ جلسوں کا رواج اور اس کی حقیقت Read More »

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ (پہلی قسط)

حسبِ عادت اُس وقت بھی میرا موبائل سائلنٹ موڈ میں تھا، اگر میں اس وقت اتفاق سے دیکھ بھی لیتا تب بھی کسی طور فون نہیں اٹھاتا اور صبح بہانہ تراش لیتا کہ موبائل سائلنٹ میں تھا،پتہ ہی نہیں چلا وغیرہ وغیرہ،مگر سوئے اتفاق کہ اُس وقت میں فون پر کسی سے مصروفِ گفتگو تھا،ایسے میں اگر فون نہ اٹھاتا تو میری عذر خواہیاں ناقابل قبول سمجھی جاتیں،سو میں نے فون ریسیو کرکے کانوں سے لگالیا۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ (پہلی قسط) Read More »

اوپر تک سکرول کریں۔