الیکشن کے نتائج اور مذہبی طبقہ کا رویہ
الیکشن کے نتائج اور مذہبی طبقہ کا رویہ
✍️ڈاکٹر عمیر انس
____________________
جب سے شعور کی انکھیں کھولی ہیں تقریبا 30 سالوں سے یہ دیکھتے آیا ہوں کہ جب بھی کوئی انتخاب ہوتا ہے تو اکثر مذہبی جماعت اپنے درمیان غور و فکر کرنے کے بعد اپنے پسندیدہ امیدواروں کی حمایت میں ایک بیان جاری کر دیتے ہیں اور اپنی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان امیدواروں کو ووٹ دے کر انہیں جتائیں. اس طرح کی اپیل جاری کرنے کے پیچھے اصل منشا یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح سے فرقہ پرست امیدواروں کو اور فرقہ پرست جماعتوں کو شکست دی جا سکے. اس طرح کی فہرست جاری کرنے کے پیچھے کئی بار سیکولر سیاسی جماعتوں کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ خصوصی تعلقات بھی کام اتے ہیں اور بعض دینی جماعتوں اور شخصیتوں کے مخصوص سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ تعلقات بھی وجہ بنتی ہیں. انتخابات کے بعد کے نتائج سے یہ بات سامنے اتی ہے کہ اس قسم کی اپیلوں کے جاری کرنے سے فائدے کافی محدود ہوتے ہیں. ہو سکتا ہے کئی بار اس طرح کی اپیل جاری کرنے کا فائدہ بہت ہوتا ہو لیکن ہمیں بحیثیت اس ملک کے شہری اور بحیثیت مسلمان اس قسم کی سیاست کے بارے میں چند بنیادی سوالات کرنے چاہیے:
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ لسٹ جاری کرنے والے حضرات اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاست کوئی پارٹ ٹائم کام نہیں ہے . ایک ایسے وقت میں جب چار پرسن پانچ پرسن کی ابادی والے سماج اپنی سیاسی نمائندگی کے لیے مستقل سیاسی تحریک اور سیاسی تنظیم بنا کر مختلف سطحوں پر انتخاب کے پہلے سال سے اگلے انتخاب تک متحرک رہتے ہیں اور اس کے باوجود وہ چاہے شکست ہو یا جیت ہو ان کی متحرک سیاست کبھی ٹھہرتی نہیں ہے ایسے میں لسٹ جاری کرنے والے حضرات یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ لسٹ جاری کرنا کوئی سیاسی عمل ہے.
لیکن چلیے اپ نے لسٹ جاری کر بھی لی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپ نے جن لوگوں کے نام یہ لسٹ جاری رکھی ہے وہ اتنے باشعور ہیں کہ وہ اپ کی لسٹ کے مطابق نہ صرف یہ کہ ووٹ دیں گے بلکہ وہ اپ کے لسٹ کے جاری کرنے کے مقاصد اور اپ کی نیت کو بھی سمجھتے ہیں. ایک ایسی جمہوریت میں جہاں ملک کی سب سے بڑی جماعتیں اپنے پیغام سے عوام کو متاثر کرنے کے لیے کوئی ایک موقع بھی چھوڑنا نہیں چاہتی ہیں اور وہ پورے پانچ سال تک ٹیلی ویژن سے لے کر سڑکوں تک مسلسل ایک زبانی جنگ میں مصروف رہتی ہیں صرف اس وجہ سے کی عوام کے درمیان دو چار فیصد ہی صحیح ان کی حمایت کرنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ جائے جمہوریت کے اس مقابلے میں وہ عوام کی ٹریننگ کرتے ہیں عوام کے سیاسی شعور کو بلند کرتے ہیں اور اپنی سیاست سے ان کو اتنا مطمئن کر دیتے ہیں کہ وہ صرف اکیلے ہی نہیں بلکہ پورے خاندان پوری برادری پورے شہر کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے متحرک ہو جاتا ہے. سیاسی تربیت کا اس لیول تک پہنچ جانا یہ بھی ان کے لیے کافی نہیں ہوتا ہے اور وہ اخبارات ٹیلی ویژن سوشل میڈیا اور پیغام سے متاثر کرنے کے ہر پلیٹ فارم کو اخری حد تک استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں. یہ بات تقریبا ناقابل فہم ہے کہ لسٹ جاری کرنے والے حضرات اپنی پوری سیاسی سرگرمیوں میں یہ سب کام کتنا کرتے ہیں. بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ عوام کو بزربان عربی کل انعام سمجھتے ہیں, ورنہ کیا وجہ ہے کہ ازادی کے 70 75 سال کے بعد بھی مسلم لیگ کے بعد مسلمانوں کے درمیان ایک بھی مضبوط, موثر, اور مقبول سیاسی تحریک پیدا نہیں ہو سکی ہے, ہندوستان کے تمام مسلمان سیاسی رہنما مل کر کے بھی مسلم لیگ جیسی سیاسی مضبوطی کا مظاہرہ نہیں کر سکے ہیں, اپ مسلم لیگ سے اختلاف کریں اور ہمیں بھی اختلاف ہے لیکن ایک سیاسی ماڈل کے طور پر جس قسم کی پارٹی انہوں نے برپا کی تھی ازادی کے بعد مسلمان اس سطح تک کبھی نہیں پہنچ سکے۔
اب آجائیں اس بات پر کہ یہ فہرست بننے سے پہلے اور بننے کے بعد کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے, جیسا کہ عرض کیا گیا فہرست جاری کرنا کبھی فائدے مند بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کے لیے فہرست جاری کی جا رہی ہے وہ یقینا اتنے باشعور ہیں کہ وہ محض اپ کی فہرست دیکھ کر اپنے سیاسی فیصلے اپ کے مطابق کرنے لگیں گے, ظاہر سی بات ہے کہ یہ ناممکن ہے, فہرست جاری کرنے سے پہلے ایک اور شرط یہ ہے کہ فہرست جاری کرنے والے حضرات بجائے خود میدان سیاست کے فل ٹائم کام کرنے والے ہوں یا ان کی سیاسی بصیرت اور سرگرمیوں سے عوام واقف ہو.
یہ شرط سمجھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ بسا اوقات بلکہ اکثر اس طرح کی فہرست جاری کرنے والے حضرات عموما کوئی فل ٹائم سیاستدان نہیں ہوتے ہیں وہ حضرات اپنی مذہبی مقبولیت کو اور اپنے دینی مقبولیت کو سیاسی مقبولیت سمجھنے کی خطرناک غلطی کرتے رہتے ہیں, یہ حضرات یہ بات نہیں سمجھتے کہ دینی مقبولیت میں جہاں تقدس اور احترام شامل ہے وہیں سیاسی مقبولیت میں خطرناک حد کی جواب دہی تنقیدی احتساب اور روز مرہ کی زندگی میں عوام کے سامنے شفافیت برتنے کی مجبوری ہوتی ہے, جہاں دینی مقبولیت رکھنے والے حضرات کو کسی بھی قسم کی تنقید کا نشانہ بنانا عوام کے لیے ناراضگی کا سبب بنتا ہے وہیں سیاسی مقبولیت رکھنے والے حضرات کو روزانہ تنقید کا نشانہ بنانے سے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے, ہندوستانی مسلمانوں کے بیشتر قائدین اور بالخصوص ملی اور دینی اہمیت رکھنے والے قائدین نے مذہبی مقبولیت اور سیاسی مقبولیت کے درمیان ایک واضح فرق نہ رکھنے کی غلطی کرتے آئے ہیں,
اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیکولر سیاسی جماعتیں جہاں اپنے ہی درمیان موجود مسلم سیاست دانوں کو اپنی پارٹی کے اندر مناسب اختیارات دینے سے گریز کرتے ہیں اور ان کو اپنی پارٹی کا سیاسی چہرہ بننے سے روکتے ہیں وہیں یہی سیاسی جماعتیں مذہبی مقبولیت رکھنے والے رہنماؤں اور شخصیات کی جی حضوری کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے, فہرست جاری کر کے سیاست کرنے والے رہنماؤں کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اخر ان کے اندر ایسی کیا بات ہے کہ اس ملک کے بڑے بڑے سیاست دان جہاں فل ٹائم سیاست سیاست کرنے والے مسلمان رہنماؤں کو بھاؤ نہیں دیتے ہیں وہ دینی مقبولیت رکھنے والے رہنماؤں کے سامنے ہر وقت سر جھکائے کیوں کھڑے رہتے ہیں, وجہ ظاہر ہے کہ مستقل سیاست کرنے والے حضرات مسائل کو حل کرنے کے لیے تنظیمی اور سیاسی اور حکومت کے انتظامی عملی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی سیاست کرتے ہیں وہی مذہبی مقبولیت رکھنے والے رہنما عموما اس قسم کے ضروری تجربات کے حامل نہیں ہوتے ہیں, لہذا یہ سمجھنا کافی ہے کہ مذہبی مقبولیت رکھنے والے مسلم رہنماؤں کا بے جا استعمال ہونا اور سیاست کے مقابلے میں ان کو مہرے کے طور پر استعمال کیے جانے کے امکانات ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں۔
ان سب کے باوجود ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ مذہبی مقبولیت رکھنے والے حضرات کو سیاست نہیں کرنی چاہیے بالکل کرنی چاہیے اور ہمیشہ کرنی چاہیے لیکن انہیں یہ بات ضرور سمجھنی چاہیے کہ سیاست مستقل توجہ چاہتا ہے وہ پارٹ ٹائم توجہ کا کام نہیں ہے, اپ ایک ہی وقت میں دونوں ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر سکتے, لہذا اپ کو ایک حقیقت پسندانا کردار کے ساتھ ہی رہنا چاہیے, مولانا ابو الکلام اور مولانا حسین مدنی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جمہوری سیاست محض وقتی اور محدود سطح کا کام نہیں ہے وہ ایک ہی وقت میں کروڑوں انسانوں کو منظم رکھنے اور انہیں بیدار کرنے اور انہیں سیاسی شعور دیتے ہوئے انتخابی سیاست میں موثر بنانے کا مشن ہے۔
ازادی کی جدوجہد سے لے کر کے ابھی تک کے سارے سیاسی تجربات یہ بتاتے ہیں کہ صرف منظم اور مستقل جدوجہد ہی سیاسی نتائج برامد کرتی ہے. لہذا اگر علماء کو اور دینی مقبولیت رکھنے والے حضرات کو سیاست کے میدان میں اپنا دیرپا اثر چھوڑنا ہے تو اس کے لیے انہیں ایک سیاسی تنظیم بنا کر اور ایک سیاسی کیڈر بنا کر اور اس کو ایک منظم انداز میں سیاست کی شکل دے کر کے ہی کرنا چاہیے ہندوستانی مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر سیاسی قائدین سیاست کو وقتی وقتی ضرورت سمجھ کر کے ہی برتتے ائے ہیں لہذا کسی بھی مسلم سیاسی تنظیم کا کوئی مستقل کیڈر اور کوئی مستقل سیاسی ائیڈیولوجی نہیں پائی جاتی ہے نہ تو مسلم جماعتوں کا قومی سطح پر کوئی اتحاد پایا جاتا ہے نہ کسی سیاسی جماعت کی مقامی سطح تک پہنچ ہوتی ہے جب کب دینی جماعتوں کو سیاسی جلسوں میں تبدیل کر کے سمجھا جاتا ہے کہ وہ کوئی سیاسی جلسہ ہو گیا ہے. خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب تک ہندوستانی مسلمان اپنے لیے ایک مستقل سیاسی تحریک اور ایک مستقل سیاسی ایجنڈا نہ بنا لیں اور اس سیاست کے لیے مستقل طور پر اپنے آپ کو وقف کر دینے والے قائدین نہ ہوں تو پھر بہتر ہے کہ صرف اثر انداز ہونے والی سیاست کی جائے اور اثر انداز ہونے کی سیاست میں آر ایس ایس سے لے کے بابا رام دیو تک درجنوں کامیاب مثالیں موجود ہیں.