Site icon

ذکر رسول کے لیے اسلوب بیان کیسا ہو؟

تحریر: خالد ایوب مصباحی شیرانی

میلاد النبی کا موسم بہار ہے اور اسی کے ساتھ ہر طرف اپنی سہولیات اور صواب دید کے مطابق جشن کا ماحول۔

جگہ جگہ جشن عید میلاد النبی منائے جا رہے ہیں، جن کی ایک بڑی شکل اسلامی جلسوں کی بھی ہوا کرتی ہے۔

عام طور پر ہمارے یہ جلسے روایتی قسم کے موضوعات، مواد سے زیادہ بے ہنگم چیخ پکار، غیر علمی نکتہ آفرینیوں اور غیر سنجیدہ زور بیان کی وجہ سے خواندہ اور دانش ور طبقے کے لیے دل چسپی کا سامان نہیں ہوتے اور نتیجتاً خطبا کی ذاتی کم زوریوں کی وجہ سے سیرت رسول جیسا اہم ترین موضوع بھی کم عقلی کو بے لذت محسوس ہونے لگتا ہے، جو کسی ناکارہ امتی کی فرد عصیاں، انسان کامل صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ذکر جمیل کے کھاتے منڈھ دینے جیسا ہے۔ 

ایسے میں مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس حساس مسئلے بابت درج ذیل نکات کی روشنی میں کچھ غور و خوض کریں، ممکن ہے خالق کائنات کوئی راہ سجھا دے:

  • (الف) اسلام سمیت کسی بھی مذہب کی پہچان اس کے بنیادی عقائد و نظریات ہوا کرتے ہیں۔ ذات رسالت بابت ہمارے معتقدات کیا کچھ ہیں؟ ہر چند کہ کتب عقائد اس سے بھرپور ہیں اور بارہا ان عقائد کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہتی ہے لیکن باب اعتقادیات کی اہمیت و نزاکت بار بار تقاضا کرتی ہے کہ اسے مسلسل دوہرایا جاتا رہے اور اس کے لیے میلاد النبی کا موسم سب سے سہانا موسم ہے۔ یعنی ماہ میلاد میں ہم جہاں دوسرے موضوعات فضائل و شمائل کو زیر بحث لائیں، وہیں اسلامی اصولوں اور دلیلوں کی روشنی میں ذات رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حیثیت، ضرورت اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بابت ہمارے بنیادی نظریات کیا ہیں، بار بار دوہراتے رہیں۔

عقائد بیانی کی زبان بہت شستہ، الفاظ بہت جامع اور مفہوم واضح ہونا چاہیے، کیوں کہ عقائد ایمان و کفر کے معیارات ہوتے ہیں اور ظاہر ہے یہ محنت اور مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔

اگر ہم اس مشن میں کام یاب ہوتے ہیں تو شاید ہمیں مسئلہ ختم نبوت، شان رسالت میں ہونے والی گستاخیوں اور اسلامی لبادے میں پائے جانے والے باطل نظریات کے رد و تردید کے لیے الگ سے مستقل کوششیں نہ کرنی پڑیں بلکہ علاوہ ازیں امت کی سب سے بڑی روحانی ضرورت، عشق رسالت کی تحریک کو خلق خدا کے دلوں کی تحریک بنانے میں بھی نمایاں کام یابی ملے۔

  • (ب) کیا فضائل و شمائل اور کیا داستان عشق، ذات رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو، جو بیتی چودہ صدیوں میں دلائل سے تشنہ رہ گیا ہو بلکہ شاید یہی وہ اکلوتا موضوع ہو، جس پر الگ الگ رنگ اور نوع بنوع زاویوں سے اتنا کچھ لکھا گیا ہے، جتنا اسلامی دنیا میں کسی اور موضوع پر شاید و باید۔ اتنے مالامال موضوع اور اس قدر وسیع ذخائر کے بعد چنداں ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ہم موضوع سے نباہ کرنے کے لیے کام یاب مطالعہ کی میز سجانے کی بجائے خود ساختہ نکتہ آفرینیوں اور قیاس آرائیوں کا سہارا لیں اور غیر شعوری طور پر اپنی بد ذوقی، علمی بے بضاعتی یا کوتاہ فہمی سے ایک بھرپور اور مالامال موضوع کی واقعی حیثیت کو زک پہنچائیں۔
  • (ج) فقہ السیرۃ یعنی سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی روشنی میں مقاصد حیات کو سمجھنے کی کوشش، ماضی قریب کی عرب دنیا میں پیدا شدہ وہ نیا ذہنی، فکری اور علمی انقلاب ہے، جس سے ہنوز اردو دنیا بہت زیادہ قریب سے واقف نہیں۔ لیکن اس موضوع کی اہمیت ہم سے شدت کے ساتھ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم سیرت رسول کا اس نئے نقطہ نظر سے مطالعہ کریں تاکہ اپنی بے چین زندگیوں کو اس قدرتی معیار پر پرکھ سکیں اور خود کو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھال سکیں۔

کسی ایک آیت، یا حدیث، یا گوشہ سیرت کو موضوع سخن بنا کر عوام پر اپنی بھڑاس نکالنا، اصلاح معاشرےمہ کا بد مذاق انداز تو ہو سکتا ہے لیکن مصلحانہ اسوہ رسول کی پیروی بہر حال نہیں۔

یوں ہی بنام سیرت واقعات کی لڑی لگا دینا، جلسے کی کام یابی کا سبب تو بن سکتا ہے لیکن شاید محض اس قدر سے سیرت بیانی کا حق نہ ادا ہو۔

در اصل سیرت بیانی صرف واقعاتی یا حادثاتی تسلسل کا نام نہیں اور نہ ہی یہ مسلسل تاریخ بیانی سے عبارت ہے بلکہ یہ منصب رسالت کی بھرپور عظمت پہچانتے ہوئے اس ذکر جمیل کا نام ہے جو بیک وقت زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق پوری کائنات کی غیر مشروط قیادت و امامت کی طاقت رکھتا ہے اور سب کے لیے قدرتی نمونہ عمل ہے۔

ایسے مہتم بالشان ذکر کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب عظمتیں دل و دماغ پر قابض ہوں، دل عشق رسالت سے اور سینے ضرورت بھر علم سے معمور ہوں، زبان نہایت موزوں الفاظ پر قادر ہو، جذبات اصلاح و تاثیر کے لیے تیار ہوں، افکار میں تقدس چھلکتا ہو، اخلاص نے تصنع کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑی ہو اور زبان دل کی رفیق ہو۔

  • (د) ہمارے عہد کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تفہیم دین کے وقت انسانی نفسیات قدم قدم پر ملحوظ رہیں۔ ورنہ ممکن ہے کوئی فائدہ ہو، ہو، نہ ہو لیکن سائڈ افیکٹ یقینی ہے۔ 

در اصل مادی ترقیات، سائنسی ایجادات اور خیالات کی آزادی نے جدید ذہن کو کچھ ایسا متاثر بلکہ مرعوبیت سے جکڑ رکھا ہے کہ جب جب مذہب کی تفہیم کے لیے کم زور طریقے اپنائے جائیں گے -بھلے یہ غلطی کرنے والے کو اپنی خطا کا احساس نہ بھی ہو- جدید ذہن حملہ آور ہوگا۔

اس لیے ضروری ہے کہ تفہیم سیرت کے وقت ہمارا انداز داعیانہ یعنی پر حکمت اور منقول دلائل کے ساتھ معقول دلائل سے بھی مبرہن ہو تاکہ الحاد اور دین بیزاری کی زہر آلود فضائیں ہمارے کم زور اسلوب کی وجہ سے براہ راست سیرت رسول، کردار رسول، احادیث رسول اور دین خدا پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔

ورنہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سوشل میڈیا کی آوارہ مارکیٹ میں ہمارا کون سا بیان کہاں جا کر کیا گل کھلائے گا۔

Exit mobile version