۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

سیل رواں

عید میلادالنبی ﷺ کے جواز کی شرعی دلیلیں

تحریر: ڈاکٹر قمر فلاحی 

نـــــــوٹ:   ڈاکٹر قمر فلاحی  صاحب کی یہ تحریر غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔قارئین سے درخواست ہے کہ ہیڈنگ دیکھ کر رائے قائم نہ کریں۔پوری تحریر  پڑھیں۔اگر آپ کی رائے اس سے مختلف ہے تو ہمیں لکھ بھجیں۔ آپ کی تحریر  اہتمام کے ساتھ اپنے پیج پر شائع کریں گے۔  ’’سیــــل رواں‘‘ 

مسلمانوں میں روایت پسندی اس قدر جڑ پکڑ چکی ہےکہ  ٹریک track  سےہٹ کر سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، چہ جائیکہ کوئی اس تعلق سے بولے اور لکھے ۔عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بنام سیرت النبی ﷺ منانے کی جب بھی کوئ بات کسی جانب سے اٹھتی ہے تو فورا اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ کرسمس کی طرح ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کرسمس ڈے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے دن پہ نہیں منایا جاتا ہے ۔کیونکہ ۲۵ دسمبر ہی عیسی علیہ السلام  کی پیدائش کا دن ہے اس پہ یہود و نصارٰی کا اتفاق نہیں ہے۔دوسری طرف دیکھیں تو ہم یہودیوں وعیسائیوں کے سیکڑوں اعمال روز کررہے ہیں مگر اس کے جواز کی کوئ دلیل ہم سے نہیں مانگی جاتی ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواز کی شرعی دلیلیں :

سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہونچے تو آپ ص نے دیکھا کہ یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وجہ پوچھی تو اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس دن موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی اسی خوشی میں ہم ایسا کرتے ہیں ۔اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسی علیہ السلام سے ہمیں تم لوگوں کی بنسبت زیادہ قربت ہے لہذا اس دن میں بھی روزہ رکھوں گا ۔

اس روایت کی بناپر کسی خوشی کے دن کو celebrate کرنے کے کا جواز ملتا ہے ۔

سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور آمد بہت زیادہ خوشی کا مقام ہے،قرآن مجید میں ہے :(ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد )

میں ایک ایسے رسول کی خوشخبری تمہیں سناتا ہوں جو میرے بعد آنے والے ہیں اور انکا نام احمد ہوگا۔

گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ایک خوشخبری ہے۔

 انسانیت کو ایمان کی دولت انہیں کی کوششوں سے ملی ہے لہذا اس موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار قابل مذمت نہیں ہوسکتا ۔

محبت کوئی عبادت نہیں ہے جس کی کوئی حد بندی کی جائے ،جس کے دل میں جتنی محبت ہو وہ اپنی محبت کا اظہار اسی مقدار میں کرتا ہے اور کرتا رہیگا الا آنکہ اس کی محبت شرک تک پہونچ جائے تو اس وقت یہ حرام ہوجاتی ہے۔

ہاں وہ محبت بھی قابل گرفت ہے جس سے سنت و شریعت کے کسی اصول پہ حرف آتا ہو۔

اہتمام ولادت :

عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ فَقَالَ : ( فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ ) . روى مسلم (1162)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے جب سوموار کے روزہ سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پہ وحی کی گئ۔

ایک دن کا اہتمام

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کو پیدا ہوئے،سوموار کو انہیں نبوت ملی،اور سوموار کو ہی ان کی وفات ہوئ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کو ہی ہجرت فرمائ، اور مدینہ سوموار کو ہی پہونچے،اور آپ نے حجر اسود کو سوموار کے دن اٹھاکر لگایا۔

[عن عبدالله بن عباس:] وُلِدَ النبيُّ ﷺ يومَ الاثنينِ واستُنْبِئَ يومَ الاثنينِ وتوفيَ يومَ الاثنينِ وخرج مهاجرًا من مكةَ إلى المدينةِ يومَ الاثنينِ وقَدِمَ المدينةَ يومَ الاثنينِ ورُفِعَ الحجرُ الأسودُ يومَ الاثنينِ۔( أحمد شاكر (ت ١٣٧٧)، تخريج المسند لشاكر ٤‏/١٧٢  •  إسناده صحيح۔)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے،سوال کیا گیا کہ آپ سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں ؟ (اس کی کوئ علت ہے)

اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کو اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی مغفرت فرماتا ہے سوائے ان دو لوگوں کے جنہوں نے  آپس میں بول چال بند کر رکھی ہو ،انہیں اللہ تعالی مہلت دیتا ہے کہ آپس میں صلح کر لےور نہ ان کی مغفرت کا معاملہ ملتوی ہوتا ہے۔ 

[عن أبي هريرة:] أنَّ النَّبيَّ – ﷺ – كان يَصومُ يومَ الاثنينِ والخميسِ، فقيلَ: يا رسولَ اللهِ ! إنَّك تصومُ يومَ الاثنينِ والخميسِ؟ ! فقالَ: إنَّ يومَ الاثنينِ والخميسِ يَغفرُ اللهُ فيهما لكلِّ مسلِمٍ؛ إلّا المتهاجرَينِ يقولُ: دَعهُما حتّى يَصطلِحا(الألباني (ت ١٤٢٠)، هداية الرواة ٢٠١٥  •  صحيح لغيره)

 [عن عائشة أم المؤمنين:] قال لي أبو بكرٍ: أيُّ يومٍ تُوفِّي رسولُ اللهِ ﷺ؟ قُلْتُ: يومَ الاثنَيْنِ قال: إنِّي لَأرجو أنْ أموتَ فيه فمات يومَ الاثنَيْنِ عشيَّةً ودُفِن ليلًا (ابن حبان (ت ٣٥٤)، صحيح ابن حبان ٦٦١٥  •  أخرجه في صحيحه)

[عن أبي هريرة:] تُفتَحُ أبوابُ الجنَّةِ كلَّ اثنينِ وخميسٍ وتُعرَضُ الأعمالُ في كلِّ اثنينِ وخميسٍ( ابن حبان (ت ٣٥٤)، صحيح ابن حبان ٣٦٤٤  •  أخرجه في صحيحه  •  شرح رواية أخرى)

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم:

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوک اور آپ ﷺ کے وضو کا پانی اپنے ہاتھ پہ لیا کرتے تھے اور چہرے پہ مل لیا کرتے تھے۔

ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ کو بطور خوشبو جمع کر رہے تھے۔

ایک صحابی نے پیالہ میں اس جگہ ہونٹ لگایا جہاں آپ ﷺ نے ہونٹ لگایا تھا۔

آپ ﷺ نے خود سے محبت کرنا اللہ سبحانہ تعالی سے محبت کرنا بتایا ہے مگر محبت کی تفصیل نہیں بتائی ہے اور مذکورہ بالا اعمال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی روشنی میں نہیں تھے بلکہ خود سے انہیں معلوم ہوا کہ ہم اس طرح محبت رسول صلی اللہ علیہ کر سکتے ہیں ۔

المہم  ایسا کرنے کا کسی جگہ نہ حکم دیا تھا اور نہ منع کیا تھا ۔

لہذا معلوم ہوا کہ محبت کیلئے کوئی قانون نہیں ہے ۔

اسی طرح امام ابو حنیفہ رح کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب حج میں گئے تو انہوں نے حب رسول میں مدینہ میں رفع حاجت کرنا پسند نہیں کیا۔

 ممانعت کی دلیل اور اس کا جائزہ:

ممانعت کی سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر یہ دین سے ثابت ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسا ضرور کرتے ۔ہاں یہ یقینا سب سے بڑی دلیل ہے، مگر معلوم ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس طرح کی محبت کیا کرتے تھے اس کے عشر عشیر کو بھی ہم نہیں پہونچ سکتے ۔ہاں وہ ایک دن کیلئے محبت نہیں کرتے تھے ۔لہذا!  ایک دن محبت کا اظہار کرنا خود اپنے آپ میں ایمان کی کمزوری کی علامت ہے ،مگر کم از کم ایک دن تو محبت رسول ﷺ کرلینے دیا جانا چاہیے ۔

صحابہ کرام کا عمل ہی ہر معاملہ میں دلیل ہے۔ اس پہ ہمارا ایمان ہے، کیوں کہ دین ان کے واسطے سے پہونچا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ جوکام صحابہ کرام نہیں کرتے تھے، اسے ہم بھی نہ کریں ۔صرف عید میلادالنبی ﷺ میں صحابہ کرام کی پیروی باقی میں من مانی بھی ایمان کی علامت نہیں ہے۔ مثلا مساجد کی زینت کی حرمت پہ دلیل بھی ہے اور عمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثبوت بھی مگر ہم نے اس پہ کبھی بحث نہیں کی ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باضابطہ طور پہ مسجدوں کے گنبدوں کو مسمار کرایا اورفرمایا کہ یہ یہود ونصاری کی پہچان ہے۔ مگر ہم گنبدوں کے ساتھ منارے بھی رکھتے ہیں وغیرہ ۔

سن ۹۱ ہجری تک سارے صحابہ دنیا سے رخصت ہوگئے ،اس وقت تک کسی مسلک کا وجود نہیں تھا ،ان کے نزدیک اتباع کا مطلب صرف کتاب وسنت تھا، کسی کے قول کو بالا دستی نہیں تھی ،مگر آج مسلک باضابطہ دین کی ایک شاخ بن چکی ہے ۔تو پھر اسے بھی حرام ہونا چاہیے ۔

دارالعلوم اور جامعات اپنی گولڈن جبلی اور سلور جبلی مناتی ہیں، اسے کوئ حرام نہیں کہتا ۔

تراویح میں ختم قرآن مجید اور پھر مٹھائیوں کی تقسیم۔ حفاظ کرام کی دستاربندی ۔اماموں کی تنخواہ یہ سب حرام ہونے چاہئیں  ،کیونکہ کتاب وسنت سے براہ راست ان اعمال کی بھی دلیل نہیں ملتی ہے۔

مسلم جماعتیں اپنی جماعتوں کی یوم تاسیس مناتی ہیں، اسے کوئ حرام نہیں کہتا ۔

تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کرنے کے لئے جب ہم حکومت سے حاصل شدہ تعطیل کا استعمال کر لیتے ہیں، تو اس دن ایک اجتماع کر لینے میں کیا حرج ہے، اسے ازسر نو غور کرنا چاہیے ۔

ہاں ایک ہی دن کیوں ،پورے مہینے اور سال بھر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ کانفرنسیں ہونی چاہیے ۔

دنیا کے سامنے اہتمام کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کرانے کا یہ اچھا موقع ہوتا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” من احبنی کان معی فی الجنة "

جو مجھ سے محبت کرے گا میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔سیرت النبی کے جلسے بھی محبت رسول میں ہی کئے جاتے ہیں لہذا عین ممکن ہے کہ یہ عمل جنت میں لے جانے والا ہو ۔انما الاعمال بالنیات۔

 آخری بات :

جوخرافات عید میلاد النبی ﷺ کے نام پہ بعض حضرات کرتے ہیں مثلا چراغاں کرنا ،جلوس نکالنا،پکوان کا اہتمام کرنا ،بطور عید کے اسے منانا وغیرہ اگر یہ سب نہ کیا جائے اور اس کی جگہ سنت رسول ﷺ کی اشاعت ان کی اتباع ،محبت رسول ،آداب محبت رسول ﷺ وغیرہ بتانے کیلئے اجلاس اور کانفرنس منعقد کیا جائے تو اس میں راقم کو کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا ،کیونکہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نعت کیلئے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مبارکبادی دی،اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسان رض کو محض اس لئے معاف کردیا کہ وہ آ پ ﷺ کی شان میں نعت کہا کرتے تھے ۔اللہ سبحانہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا کرے آمین ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: