مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ
ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا سے پارلیامنٹ کی رکنیت چھین لی گئی ہے، ان پر الزام تھا کہ وہ روپے لے کر پارلیامنٹ میں سوالات اٹھاتی ہیں اور وہ بھی مودی جی کے محبوب اڈانی گروپ پر، جس الزام کے تحت انہیں نکالا گیا وہ الزام سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے لگایا تھا جو مہوا موئترا کا سابق عاشق تھا، اس کا کہنا تھا کہ مہوا نے ہیرا نندان جواڈانی گروپ کا حریف ہے، اس سے روپے لے کر سوالات اٹھائے، اس کو بنیاد بنا کر بی جے پی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے تحریری شکایت اسپیکر کو دی اورمقدمہ چل پڑا، پوچھ تاچھ کے لیے مہوا کو جانچ ایجنسی کے سامنے پیش ہونا پڑا اور اس سے جو سوالات کیے گیے وہ بالکل نجی قسم کے تھے،مثلا آپ رات میں فون پر کس سے بات کرتی ہیں، رات میں کہاں رہتی ہیں، اس قسم کے اول جلول سوال سے خفا ہو کر مہوا موئترا نے اس جانچ کا بائیکاٹ کیا اور اٹھ کر چلی آئیں، اس کے بعد سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اخلاقیات کمیٹی انہیں معاف نہیں کرے گی اور ان کو رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اب مہوا موئترا سپریم کورٹ پہونچ گئی ہیں، دیکھنا ہے کہ انہیں وہاں سے بھی راحت ملتی ہے یا نہیں؟
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ مرکزی حکومت اس قسم کے اقدام انتقامی جذبہ سے کرتی ہے، دلیل یہ ہے کہ اسی قسم کے جرم میں بھاجپا کے ارکان ماخوذ نہیں ہوتے اور ان کی رکنیت نہیں جاتی ہے، مہوا کے خلاف تحریری شکایت درج کرانے والا ایم پی نشی کانت دوبے پر خود جعلی اسناد پر انتخاب لڑنے کا مقدمہ درج ہے، اس پر آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی، رمیش بدھوری بھی پارلیامنٹ میں گالی بک کر رکنیت سے ہاتھ نہیں دھو سکا، البتہ راہل گاندھی زد میں آئے تو ان سے سب کچھ چھن لیا گیا، جنسی استحصال کے سنگین مجرم ایم پی برج موہن سنگھ پر بھی اب تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی؛ کیوں کہ وہ بھی منظورنظر ہیں۔
مہوا موئترا کا ایوان میں رہنا اور ان کا بار بار اڈانی گروپ پر سوال اٹھانا اور وہ بھی پچاس کی تعداد میں، بھاجپا کی نظر میں غیر معمولی جرم تھا، اس لیے ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا، اگر مہوا موئترا مجرم تھیں تو اس پر پارلیامنٹ میں گفتگو ہونی چاہیے تھی، اخلاقیات کمیٹی میں اتنی اخلاقی حس تو ہونی ہی چاہیے تھی کہ انہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیا جاتا، اسپیکر چاہتے تو تنبیہ اور ہلکی سرزنش سے بھی کام چلا سکتے تھے؛ لیکن یہ بات ان کے آقا کے چشم وابرو کے خلاف تھی، اس لیے اسپیکروہی کر سکتے تھے جو ان کی پارٹی چاہتی تھی، پہلے اسپیکر غیر جانبدار ہوتا تھا؛ لیکن اب وہ حق کے طرفدار نہیں پارٹی کے جانب دار ہوا کرتے ہیں، واقعات ومشاہدات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
در اصل یہ طریقہ ہی غلط ہے کہ لاکھوں عوام کی رائے کی بنیاد پر جیت کر آنے والے ارکان کو چند لوگ مل کر پارلیامنٹ سے باہر کر دیں، جو پارلیامنٹ بھیج رہا ہے اسی کو واپس لینے کا بھی اختیار ہونا چاہیے، جن ارکان پر الزامات لگے اسے پھر عوام کی عدالت میں بھیج دینا چاہیے؛تاکہ وہ نوٹا کا استعمال کرکے اسے واپس لے، یہ جمہوری نقطہ نظر کے عین مطابق ہوگا اور عوام کی آرا کی توہین بھی نہیں ہوگی، سرکار کو اس قسم کا قانون بنانا چاہیے، تاکہ ارکان کے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی، نیزبرخاستگی کے انتہائی عمل کو روکا جا سکے۔