Slide
Slide
Slide
محمد قمرالزماں ندوی

دین کے لئے اپنے نفس کو مارنا یہ بڑا کمال ہے!

✍️ محمد قمر الزماں ندوی

______________________

اسلام کی دعوت یقینا تحریر و تقریر اور وعظ و نصیحت سے پھیلتی ہے ۔ جدید ذرائع و وسائل کے استعمال سے اس میں وسعت آتی ہے اور دین کی بات زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے ،لیکن اس کی اثر پذیری اور قبولیت اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام کا داعی خود اسلام پر سوفیصد اور کما حقہ عمل کرنے والا ہو، اس کی ساری زندگی میں اسلام جاری و ساری ہو اور اس کے معاملات زندگی میں مکمل شریعت کی پابندی نظر آتی ہو ۔داعی دین کی زندگی دعوت کی اصل طاقت اور قوت ہے ۔عمل کی طاقت زیادہ موثر اور اثر انگیز ہوتی ہے ،عمل کی طاقت خاموشی سے اپنا رنگ دکھاتی ہے ،عمل کی طاقت تلوار سے زیادہ تیز ہوتی ہے ۔عمل کی طاقت روشنی کی طرح ہر شخص کو مستفید کر دیتی ہے ۔ فی زمانہ داعیانہ دین کا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو دعوت وہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اس پر کہاں تک عامل ہیں ؟ نجی زندگی میں ،خاندانی زندگی میں معاشی اور ،سماجی و معاشرتی امور میں ،حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ، بازار میں ،دفتر میں ،اپنیوں کے درمیان اور غیروں میں ان کا رویہ کیا ہے ؟ ان کا معاملہ اور کردار کیا ہے ؟ ہم سب اپنا جائزہ لیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین کے داعی کہلانے والے عمل کے معاملے میں بہت حدتک کمزور نظر آتے ہیں ۔ جس دن داعی کی زندگی میں واقعتا داعیانہ اوصاف و کردار پیدا ہو جائیں گے اور داعی وقت پڑنے پر اپنے نفس کو مارنے اور جذبات کو کچلنے کے تیار ہو جائے گا دعوت و تبلیغ میں وہی کشش اور اثر انگیزی پیدا ہو جائے گی ۔ ذیل میں حکیم الامت حضرت تھانوی رح کا ایک واقعہ ملاحظہ کریں ،جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نفس جس بات کو نہ مانے اندر سے نہ ،نہ کی آوازیں آئیں اور دوسری طرف جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی ہو تو اس وقت اپنی خواہش ،اپنے نفس ،اپنی انا، اور جذبے کو مارنا اونچا کام ہوتا ہے۔ م۔ ق ن

____________________


📃 حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے بزرگوں میں بہت اونچے درجہ کے ولی تھے اور چودھویں صدی کے مجدد گزرے ہیں۔ آپ بڑے لطافت پسند بھی تھے۔ ایک علاقے میں جہاں مسلمان اور ہندو رہتے تھے ان میں بہت سے ہندو مسلمان ہو گئے تو وہاں کے جو اَن پڑھ مسلمان تھے وہ ان کے برتن میں پانی پینے سے کتراتے تھے کہ یہ ہندو تھے…. تو کسی نے حضرت تھانوی کو لکھا کہ یہ لوگ ہندو سے مسلمان ہوئے مگر یہاں کا مسلم معاشرہ ان غریبوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں … اب کیا کریں !؟ …اس لئے آپ تشریف لائیں تاکہ آپ کے بیان سے یہاں کے لوگوں کو نصیحت مل جائے۔ چنانچہ آپ نے ان کی دعوت قبول فرمائی اور آپ تشریف لے گئے، اور پھر وعظ فرمایا اور تقریر کا عنوان اورموضوع تو حضور ﷺ  کی رسالت اور محبت کا رکھا مگر جس بات کے لئے آپ کو بلایا گیا تھا اس پر آپ نے پہلے بات نہ کی … جو لوگ مسلمان ہوئے تھے وہ بھی اس مجلس میں آئے ہوئے تھے اور وہ بھی آگے بیٹھے ہوئے تھے۔  تو حضرت تھانوی نے تقریر کرتے کرتے فرمایا کہ پانی لے آئیں پیاس لگی ہے، دیہاتی علاقہ تھا گلاس کے بجائے لوٹے میں پانی لایا گیا اور پانی، ٹوٹی کو منہ لگا کر پیا جاتا تھا۔ حضرت تھانوی طبعی طور پر بہت لطافت پسند بزرگ تھے مگر یہاں معاملہ دین کا تھا، ان نئے اسلام لانے والوں کے اسلام کی حفاظت کا تھا، آپ کو پہلے بتلا دیا گیا تھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے وہ کون کون سے لوگ ہیں جو مسلمان ہوئے ہیں تو آپ نے ان میں سے ایک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ پہلے پانی پی لیں، چنانچہ اس نے بھی بغیر کسی تکلف کے اس ٹوٹی کو منہ لگا کر پانی پی لیا … اس کے بعد اس بھرے مجمع میں، جہاں وہ لوگ بھی بیٹھے تھے جو ہندؤں کے برتن میں پانی نہیں پیتے تھے، آپ نے انکے سامنے اس ٹوٹی کو منہ لگا کر پانی پیا … حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ پانی پیتے ہوئے کچھ اپنی طبیعت پر احساس ہونے والا تھا کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شیطانی تصرف ہے جو ہمیشہ دین کے رستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور یہ کہہ کر آپ نے وہیں سے پانی پیا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ … کہ نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کے دلوں میں نرمی آگئی جو کراہت محسوس کرتے تھے بلکہ اس علاقے میں اور جتنے بھی ہندو تھے اللہ نے ان کو آپ کی برکت سے اسلام کی توفیق دے دی اور وہ سب مسلمان ہوگئے۔‬‬‬‬‬‬‬‬
نفس جس بات کو نہ مانے، اندر سے کچھ نہ، نہ کی آوازیں آئیں اور دوسری طرف جناب محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات کی روشنی ہو تو اس وقت اپنے جذبے کو مارنا یہ بڑا اونچا کام ہوتا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: