Slide
Slide
Slide

حرام خوری یہ بھی ہے

✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری

______________________

چند روز پہلے حکیم الامت حضرت تھانوی کاایک اقتباس پڑھا تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔  حضرت سے کسی نے پوچھا کہ میں ایک جگہ استاذ ہوں پڑھاتا ہوں بعض لوگ اوقات تعلیم کے وقت پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں ان سے باتیں کرنے میں جو طلبہ کا حرج ہوتاہے تو کیا یہ خیانت ہوگی؟ حضرت تھانوی نے فرمایا کہ بے شک یہ خیانت ہے ان لوگوں کومنع کردینا چاہیے کہ یہ کام کا وقت ہے ، پھر اس شخص نے عرض کیا کہ جو اس وقت تک ہوچکا یا آئندہ اتفاقا ایسا پھر ہوجائے تو کیا اس کا کوئی بدل ہوسکتا ہے؟ فرمایا سوائے توبہ کے اور کوئی بدل نہیں عرض کیا خارج اوقات میں کوئی کام کردیا جائے ؟ فرمایا یہ بھی اس کا بدل نہیں، فرضوں کے قائم مقام نفل تھوڑا ہی ہوسکتی ہیں، کام کے وقت کام کرنا چاہئے اور لوگوں کومنع کردینا چاہئے "

اس واقعہ کو محی السنہ حضرت مولانا ابرارالحق ہردوئی نے باقاعدہ لکھواکر شائع کرایا تھا۔

اب تو خیر چشمہ لے کر بھی تلاش کرنے سے کوئی ایسا نمونہ نہیں ملتا ورنہ زیادہ دن نہیں گزرے میرے استاذ تھے حضرت مولانا مفتی مظفرحسین، حضرت مولانا اطہر حسین، حضرت مولانا علامہ محمد یامین سہارنپوری یہ لوگ قلت تنخواہ کے باوجود ہرماہ پابندی کے ساتھ "کوتاہی ملازمت” کے نام سے کچھ نہ کچھ پیسے دفتر مالیات میں جمع کراتے تھے تاکہ ممکن ہے انجانے میں ہی ہونے والی کوتاہی کی تلافی ہوسکے۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد، زکریا مہاجر مدنی، حضرت مولانا محمد یونس جونپوری، استاذ گرامی حضرت مولانا رئیس الدین بجنوری نے حساب لگوا کر تنخواہ کے نام سے ایک ایک پائی جوڑ کر مدرسہ کے خزانے میں واپس جمع کرادی،  دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری نے بھی پائی پائی کا حساب کرکے لی ہوئی تنخواہ واپس مدرسہ میں جمع کرادی۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ ایک خطاب میں فرماتے ہیں:

"حرام خوری کی بہت ساری قسمیں ہیں، بہت سی قسمیں ایسی بھی ہیں جن کو لوگ حرام سمجھتے ہی نہیں، مثال کے طور پر ایک ملازم ہے اور جتنا وقت دینا چاہئے اتنا وقت نہیں دے رہا ہے اس کے اوپر لازم ہے کہ اگر آٹھ گھنٹے ملازمت کا وقت ہے تو پورے آٹھ گھنٹے ملازمت میں خرچ کرے دس منٹ بھی بچا لئے یا پندرہ منٹ ہی بچا لئے تو پندرہ منٹ جو اس نے نکالے ہیں اس پندرہ منٹ کی جو تنخواہ ہوگی وہ تنخواہ حرام ہوگی اور وہ کھانا بھی حرام ہوگا اس میں حرام کہ آمیزش ہوجائے گی کیونکہ اس نے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی اس نے وہ وقت نہیں دیا جو طے تھا یہ حرام خوری ہے لوگ اس کو حرام نہیں سمجھتے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی شخص ملازمت کے جو فرائض ہیں ان فرائض کو چھوڑ کر نفلی نماز بھی جو پڑھے گا نفلی تلاوت بھی کرے گا وہ حرام ہوگا اس کے لئے اور اس وقت کی تنخواہ اس کے لئے حرام ہوگی”

دار الافتاء دارالعلوم دیوبند کا ارشاد ہے:

"اگر کوئی استاد طے شدہ وقت کی پابندی نہیں کرتا اور سمجھانے اور تنبیہ کرنے کے بعد بھی باز نہیں آتا تو ادارے کی انتظامیہ اس کی تنخواہ میں سے اس قدر کٹوتی کر سکتی ہے جس قدر وہ غیر حاضر رہا ہو اس سے زیادہ کٹوتی کرنے کی اجازت انتظامیہ کو نہیں ہو گی”۔

حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی بانیان مظاہرعلوم میں سے ہیں، آپ کے تقوی اور ورع کے بہت سے واقعات اب بھی مشہور و معروف ہیں چنانچہ حضرت مولانا شیخ محمد زکریا مہاجر مدنی فرماتے ہیں کہ حضرت کے پاس اگر کوئی ذاتی شخص ملاقات  کے لیے آجاتا تو آپ گھڑی میں وقت دیکھ کر ایک کاغذ پر وقت آمد لکھ لیتے پھر جب چلاجاتا تو گھڑی میں دیکھ کر جانے کا وقت لکھ لیتے اور پھر ان تمام منٹوں کو جوڑتے اور مجموعی طورپر اگر آدھے دن سے کم وقت ہوتا تو آدھے دن کی  تنخواہ وضع کرادیتے اور اگر آدھے دن سے زیادہ وقت ہوتا تو پورے دن کی تنخواہ وضع کرادیتے تھے۔ (آپ بیتی)

آپ کا یہی تقوی اور ورع تھا کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی کو رقعہ لکھاکہ اگرکسی روز کسی ذاتی غرض سے مدرسہ کے کام نہ کرسکیں تو مدرسہ سے تنخواہ نہ لیں جیسے مولوی محمد مظہر صاحب کرتے ہیں۔ (تذکرہ مولانا محمد مظہرنانوتوی)

اصل میں "الناس علی دین ملوکہم”ایک عام اصول ہے، سربراہ مملکت کا کردار رعایا بہت جلد قبول کرتی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر بندے کے پیچھے ڈنڈا اور تلوار لے کر نہیں چلتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز ہر شخص کے لئے شمشیر برہنہ نہیں تھے پھر بھی ان بزرگوں کی حکومت آج تک مثالی بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ پہلے خود عمل کرتے تھے۔ عوام تو خود بخود اپنے  پیش رو اور فرمانروا کی اقتدا کرتے ہیں۔

شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صدر مدرس تھے دارالعلوم دیوبند کے، آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ

"اوقات درس کی پابندی میں اپنی نظیر خود تھے ، گھنٹہ شروع ہوتے ہیں درسگاہ میں داخل ہوجاتے اور ایک دو منٹ قبل ہی فارغ کردیتے ، حتی کہ بعض اساتذہ دارا لعلوم دیوبند نے درس حدیث میں اوقات کی پابندی کا سبق شیخ الادب سے ہی لیا”

حلال حلال کی رٹ لگانا بہت آسان ہے، حلال کمانا اور حلال کھانا اور کھلانا فی زماننا بہت مشکل ہے، وقت کی پابندی، امور مفوضہ کی پابندی، خوف خدا، حساب اور اللہ کے دربار میں پیشی کا ڈر نہایت ضروری ہے۔ صرف منبر و محراب اور مجالس و محافل میں تقوی پر تقریر کردینا یا مسند افتاء وارشاد پر بیٹھ کر تقوی کے فتوی دی دینا بہت آسان ہے عملی دنیا میں حزم واحتیاط اور فتوی پر تقوی کو اہمیت دینا بہت مشکل ہے، ہم اپنی آسانی کے لئے فتوے تلاش کرنے لگے، ہم دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے فتوے لینے لگے حالانکہ فتوی تو مرد مسلمان کی زندگی کا لابدی حصہ ہونا چاہیے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: