Slide
Slide
Slide

حاجی محمد اشرف خاں: اتنی دور چلا گیا، جتنا قریب تھا

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

__________________

اشرف بھائی بھی جدا ہوگئے، تاریخ 18/جون2024ء مطابق11/ذی الحجہ 1445ھ اور دن منگل کا تھا، فجر کی نماز باجماعت پڑھی، معمولات پورے کیے، ناشتہ کیا، ایک کاغذ کی تلاش تھی تو اس میں لگ گیے، کتابوں کو جھاڑ پونچھ کیا، دوپہر کے بارہ بج گئے، تکان محسوس ہوئی، دہلی کی گرمی الاماں والحفیظ، پسینے پسینے ہوگئے، آرام کی غرض سے بغل کے روم میں کولر چلاکر لیٹ گیے اور چلتے بنے، جاتے جاتے بتا گیے کہ کس قدر آسان ہے موت، نہ نزع کی تکلیف، نہ سکرات کی آہ وفغاں، نہ ہاتھ کھینچا اور نہ پاؤں، آنکھوں کو اپنے اس محبوب کے دیدار اور وصال کے لیے بند کرلیا، جس کے لیے پوری زندگی وہ کام کرتے رہے اور کام آتے رہے تھے، حادثہ ان کی رہائش گاہ ابوالفضل نئی دہلی میں پیش آیا، خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، جس نے سنا حیران وششدر رہ گیا، جنازہ ان کے آبائی گاؤں بگہی بناہی، بھوجپور لایا گیا، ۹۱/جون کو بعد نماز عصر جنازہ کی نماز اس حقیر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، ایک لڑکا نوشاد خاں اور دو بھائی اصغر خاں پر وفیسر کریم سٹی کالج جمشیدپور اور محمد اسلم خاں ہیں۔
حاجی محمد اشرف خاں بن محمد توفیق خاں (م1993ء) بن محمد کاظم خاں بن راجہ خاں بن جنگلی خاں، بن بھولی خاں آدھار کارڈ کے مطابق31/دسمبر1954ء کو موضع بگہی، ڈاکخانہ بناہی، تھانہ بہیا، ضلع بھوج پور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پرائمری اردو اسکول بگہی میں پائی، والد صاحب ٹسکو جمشیدپور میں ملازم تھے، اس لیے آگے کی تعلیم جمشیدپور میں پائی، سنٹرل کریمیہ ہائی اسکول سے میٹرک اور کریم سٹی کالج جمشیدپور سے آئی کوم اور بی کوم کیا، گریجویشن کے بعد اپنے گاؤں بناہی لوٹ آئے اور مختلف اوقات وایام میں انہوں نے کھاد، کوئلہ اور ہڈی کی تجارت کی، سیاسی شعور بھی تھا اور ذوق بھی اس لیے اس وقت کے مقامی ام، ال اے پروفیسر کے کے تیواری کے ساتھ لگ گیے اور ان کے انتخابی جلسوں میں بھرپور حصہ داری نبھائی اور اپنی جوشیلی تقریروں کے ذریعہ مسلم رائے دہندگان کو ان کے حق میں ہموار کیا، جب وہ جیت گیے تو وہ اشرف بھائی کو گاؤں سے اٹھاکر پٹنہ لے آئے اور بھارت ویگن میں جنرل منیجر کے پی اے کے طور پر ان کی بحالی ہوگئی، کئی سال یہاں انہوں نے ملازمت کی، اس زمانہ میں موریہ لوک میں اس کی آفس ہوا کرتی تھی، بھارت ویگن نے جب پٹنہ میں اپنا کام بند کیا تو دوسرے ملازمین کے ساتھ انہوں نے بھی رضاکارانہ طورپر سبکدوش ہونے کا فیصلہ لیا اور سبکدوش ہوگیے، پھر وہ کئی ماہ سعودی عرب رہے، لیکن یہ ملازمت انہیں راس نہیں آئی، واپس ہوئے اور دہلی میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا، میں نے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ اسلامیہ قاسم العلوم مدھوبنی سوپول کی دہلی آفس میں وقتی طورپر ان کے رہائش اور خورد ونوش کا انتظام کیا، کچھ دن وہاں قیام کے بعد وہ صدر شعبہ فائن آرٹ جامعہ ملیہ یونیورسٹی دہلی کے اسٹونو کے طورپر کام کرنے لگے اور کوئی اٹھارہ سال کا عرصہ اس ملازمت میں گذر چکا تھا، وہ تبلیغی جماعت کے مضبوط رکن تھے، مزاج شریعت پر عمل کا تھا، اس لیے تصویر اور مجسمہ سازی جو اس شعبہ کا اصل کام تھا اور طلبہ وطالبات کو یہ کام سکھایا جاتا تھا، اس سے ان کو نفرت اور الرجی تھی، بہت سمجھا بجھا کر اور ذاتی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اسے گوارہ کیے ہوئے تھے، ہم لوگوں نے انہیں سمجھا رکھا تھا کہ جب تک متبادل نہ ملے ان کو اسے نہیں چھوڑنا چاہیے اور یوں بھی آپ کی عملی شرکت تو ان کاموں میں ہے نہیں، اس لیے گوارہ کیجیے اور وہ بادل نخواستہ اس شعبہ میں کام کرتے رہے۔
اشرف بھائی سے میرے تعلقات کم وبیش پینتیس (35) سال کو محیط تھے، میں جس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں استاذ تھا اور بہار مدرسہ بورڈ نے میری خدمات بہار مدرسہ بورڈ کی تاریخ لکھنے کے لیے آن ڈپویشن لیا تھا، اس زمانہ میں گولک پور، مہندرو پٹنہ کے ایک کھپریل کمرے میں ہم دونوں ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے، کھانا میس سے آتا تھا، دو چوکی کے بعد صرف کمرے میں گھسنے کی جگہ بچتی تھی، ہم لوگوں نے کم وبیش پانچ سال 1990ء سے 1994ء تک ایک ساتھ گذارے، وہ بھارت ویگن میں تھے اور میں مدرسہ بورڈ میں، بعد میں وہ ہارون نگر سیکٹر-2 منتقل ہوگئے تھے اور میں کوئی دس سال بعد امارت شرعیہ کے نائب ناظم کی حیثیت سے امارت شرعیہ طلب کرلیا گیا، باتیں، ملاقاتیں ہوتی رہیں، اس پورے عرصہ میں ان کے کام میں تو نہیں آسکا، لیکن وہ باربار میرے کام آتے رہے اور میں ہی کیا وہ ہرایک کے کام آتے تھے، ان کے نام کا اچھا خاصہ اثر ان کی شخصیت پر تھا، وہ شریف تھے اور اشرف بھی، ہر انسان اشرف المخلوقات ہے، لیکن انہوں نے یہ مقام لوگوں کی خدمت کرکے حاصل کیا تھا، دہلی میں میرا یا ان کے گاؤں کے کسی کا کوئی کام اٹکتا تو اشرف بھائی کی یاد آتی، 2012ء میں جب اللہ کے بلاوے اور شاہ سلمان کی دعوت پر مجھے حج کی سعادت ملی تو سفر میں ایک روز باقی تھا اور یہ اتوار کا دن تھا، مجھے ٹیکہ نہیں لگا تھاجو سفر کے لیے انتہائی ضروری تھا، اشرف بھائی نے اپنا پواپاسی لگاکر دہلی حج ہاؤس کو میرے ٹیکہ لگانے کے لیے اتوار کو کھلوا دیا اور میں ایک بڑی پریشانی سے بچ گیا، انہوں نے الشفا ہوسپیٹل سے اتوار کے دن جانچ کراکر صحت سرٹیفکٹ بنوادیا، میری بیٹی ناصبہ عشرت کا جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ ہوا تو ہوسٹل دلوانے میں انہوں نے جدوجہد کی اور بیٹی ہی نہیں، بھتیجی تک کے لیے ہوسٹل الاٹ کراکر دم لیا، دہلی میرا سفر ہوتا تو زبردستی وہ مجھے پکڑ کر اپنے گھر کھانے پر لے جاتے، صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے میرے لیے ناشتہ گھر سے لے کر آتے، ستو بھری روٹی، اچار اور آملیٹ میرا پسندیدہ ناشتہ ہے، ان کی اہلیہ بھی اس کا بہت خیال رکھتی تھیں، ایران کا میرا سفر تھا، مقالہ کمپوز نہیں ہوسکا تھا، کچھ مواد کی بھی ضرورت تھی، جامعہ کے ایک پروفیسر سے مل کر انہوں نے میری یہ پریشانی دور کی، ہر جاڑے میں مارکیٹ سے میرے پہننے کے لیے وہ ایک جیکٹ خریدتے اور جب ملاقات ہوتی، پیش کرتے، ان کے گاؤں میں ایک مدرسہ ہے، ذمہ داروں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ جلسہ ہرحال میں میری صدارت میں ہوگا، آخری جلسہ اسی سال فروری میں ہوا تھا، وقت مجھ سے انہوں نے ہی لیا اور ساری مشغولیات کے باوجود مجھ سے ملنے گاؤں آئے، جلسہ میں شریک ہوئے، دور شاہ پور سے استقبال کرنے والوں کی لائن لگوائی، خود بھی پیش پیش رہے، جب تک میرا قیام وہاں رہا، ساتھ ساتھ لگے رہے، اب ایسے مخلص لوگ کہاں ملتے ہیں، یہ میری ان سے آمنے سامنے کی آخری ملاقات تھی۔

جامعہ میں ملاقات ہوتی تو کینٹین سے بریانی منگواکر کھلواتے، کہیں جانا ہوتا تو وقت نکال کر ساتھ ساتھ جاتے، یقینا دہلی کی مصروف زندگی میں یہ کام آسان نہیں ہوتا، میں نے دہلی میں ”اپنا پن“ کا اظہار کرنے والے مختلف لوگوں کو مختلف اوقات میں آزمایا، وقت دینے کے معاملے میں سب کمزور ثابت ہوئے، مجھے اپنا سمجھئے کہنے والے تو بہت ہیں، لیکن جن سے مل کر ”اپنا پن“ کا شدید احساس ہوتا تھا وہ صرف اشرف بھائی تھے۔
اشرف بھائی کی دادی ہال، نانی ہال، سسرال سب بگہی میں ہی تھی، ان کے نانا محمد رمضان خاں بن جمن خاں تھے، شادی رشتہ کے چچا کی لڑکی سے تھی، ان کے سسر محمد مہدی خاں (م2010ء) بن محمد کبیر خاں بن محمود خاں بن جنگی خاں بن بھولی خاں تھے، دادی ہال اور سسرالی سلسلہ نسب جنگی خاں پر آکر مل جاتا ہے۔
اشرف بھائی کے گذر جانے کا جو صدمہ مجھے پہونچا ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں ہے، غم کی اس کیفیت کی تصویر کشی کے لیے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں، اللہ مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے اور ان کی خدمات اور حسن سلوک کے عوض انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العٰلمین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: