یزید پلید کے کالے کارنامے
از:محمد شہباز عالم مصباحی
اسسٹنٹ پروفیسر سیتل کوچی کالج، کوچ بہار، مغربی بنگال
_________________
یزید ابن معاویہ بن ابی سفیان، جسے اسلامی تاریخ میں یزید پلید کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسی متنازعہ شخصیت ہے جس کے دور حکومت کو ظلم، جبر اور اسلام کے اصولوں سے انحراف کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ یزید نے 680 عیسوی (61 ہجری) میں خلافت سنبھالی، اور اس کا دور حکومت محض تین سال رہا، مگر ان تین سالوں میں اس نے ایسے اعمال انجام دیے جو اسے ہمیشہ کے لیے اسلامی تاریخ کا ایک بدنام کردار بنا دیتے ہیں۔
واقعۂ کربلا:
یزید کے کالے کارناموں میں سب سے زیادہ بھیانک اور المناک واقعہ کربلا کا ہے۔ یزید نے حضرت امام حسینؓ کو بیعت کے لیے مجبور کیا، جو کہ اسلامی اصولوں کے خلاف تھا۔ امام حسینؓ نے اس جبر کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور حق و صداقت کی راہ پر چلتے ہوئے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 10 محرم 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ اسلامی تاریخ میں ایک عظیم المیہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور یزید کی حکومت کی بدترین علامت ہے۔
مدینہ منورہ پر حملہ:
یزید کے دوسرے کالے کارناموں میں مدینہ منورہ پر حملہ شامل ہے۔ 63 ہجری میں یزید نے مدینہ کے لوگوں کے خلاف ایک فوج بھیجی، جس نے شہر میں شدید تباہی مچائی۔ اس حملے میں مسجد نبوی کی بے حرمتی کی گئی اور بہت سے صحابہ کرامؓ اور ان کی اولادوں کو قتل کیا گیا۔ یہ واقعہ "واقعہ حرہ” کے نام سے جانا جاتا ہے اور یزید کی ظلم و بربریت کی ایک اور واضح مثال ہے۔
مکہ مکرمہ پر حملہ:
مدینہ کی تباہی کے بعد یزید کی فوج نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا۔ 64 ہجری میں، جب عبداللہ بن زبیرؓ نے یزید کی حکومت کے خلاف بغاوت کی، یزید نے مکہ مکرمہ کو محاصرے میں لے لیا۔ اس دوران خانہ کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا گیا، جس سے خانہ کعبہ کو نقصان پہنچا اور بہت سے بے گناہ افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ یہ واقعہ یزید کی بے رحمی اور اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کا ایک اور ثبوت ہے۔
یزید کی اخلاقی پستی:
یزید کی شخصیت اور اس کی زندگی کے دیگر پہلو بھی اس کے کالے کارناموں کا حصہ ہیں۔ وہ شراب نوشی، بے راہ روی اور غیر اسلامی طرز زندگی کے لیے بدنام تھا۔ اس کے دربار میں ناچ گانا، عیاشی اور غیر اخلاقی سرگرمیاں عام تھیں، جو اسلامی اصولوں کے خلاف تھیں اور مسلمانوں کے دلوں میں یزید کے خلاف نفرت پیدا کرتی تھیں۔
یزید کے لئے اخطل کا مرثیہ:
یزید کے دربار میں موجود اخطل، جو کہ ایک عیسائی اور شراب نوش شاعر تھا، یزید کے قریب ترین درباریوں میں شامل تھا۔ یزید کی موت کے بعد، اخطل نے اپنے ہم پیالہ دوست کے لیے مرثیہ لکھا۔ یہ مرثیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یزید کے دربار میں شراب نوشی اور غیر اسلامی طرز زندگی کس حد تک عام تھا اور وہ کس قدر شراب کا عادی اور ایک شرابی شاعر کے نزدیک محبوب تھا کہ اس کا مرثیہ شراب میں لت پت رہنے والے اخطل نے لکھا۔
یزید اور ناصبیت:
یزید ناصبیت کا بانی سمجھا جاتا ہے، جو کہ ایک ایسی فکر تھی جس میں اہل بیتؓ اور ان کے پیروکاروں سے عداوت برتی جاتی تھی۔ یزید نے اس فکر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے نتیجے میں اسلامی معاشرے میں اہل بیتؓ کے خلاف نفرت اور دشمنی کی فضا قائم ہوئی۔ یزید کے بعد، مروان ابن حکم اور حجاج بن یوسف جیسے افراد بھی ناصبیت کے سرگرم رکن بنے اور انہوں نے بھی اہل بیتؓ کے خلاف ظلم و ستم کی روایت کو جاری رکھا۔ مروان اور حجاج بن یوسف نے بھی یزید کی پالیسیوں کو اپنایا اور اپنی حکومتوں میں اہل بیتؓ اور ان کے حامیوں کے خلاف کاروائیاں کیں۔
نتیجہ:
یزید ابن معاویہ کی حکومت کا دور تاریخ اسلام کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس کے کالے کارنامے اور ظلم و ستم نے اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور آج بھی مسلمان اس کے اعمال کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یزید کے ظلم و ستم کے باوجود، امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی قربانی نے اسلام کے اصولوں اور حق و صداقت کی حفاظت کی، اور یہ پیغام دیا کہ ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کا نام ہی حقیقی اسلام ہے۔ یزید کی موت پر اخطل کا مرثیہ ایک شراب نوش کے دوسرے شراب نوش کی جدائی پر لکھا گیا غم کا اظہار ہے، جو درباری شاعری اور خوشامدیوں کی حقیقی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
حوالے:
1. ابو الفرج الاصفہانی، "کتاب الاغانی”
2. طبری، "تاریخ الرسل والملوک”
3. ابن کثیر، "البدایہ والنہایہ”
4. ابن اثیر، "الکامل فی التاریخ”
5. ابن حجر عسقلانی، "الاصابہ فی تمییز الصحابہ”
6. ابن سعد، "الطبقات الکبری”