محمد قمر الزماں ندوی
_____________
مال و دولت کو حاصل کرنا، اس کے لیے سعی و کوشش اور تگہ و دو کرنا یہ کوئی بری چیز نہیں ہے ، مال و دولت سے محبت یہ انسان کی فطرت اور خمیر میں ہے ،اس سے محبت حد درجہ اس میں پائی جاتی ہے، قرآن مجید میں ہے ،، وانه لحب الخیر لشدید ،، مال و اولاد کو زینت الحیاة الدنیا کہا گیا ہے کہ یہ دنیاوی زندگی کی زیب و زینت ہے ۔ مال و متاع یہ اسباب دنیا ہے، زندگی گزارنے کے لیے حلال روزی کو حاصل کرنا اور اس کے حصول کے لیے ذہن و دماغ صرف کرنا ،پسینہ بہانا، شریعت میں یہ مطلوب و محبوب اور مستحسن عمل ہے ، قرآن مجید میں آخرت کی بھلائی کے ساتھ دنیا کی بھلائی کے لیے دعا کرنے کو کہا گیا ہے بلکہ دنیا کی بھلائی مانگنا یہ پہلے ہے اور آخرت کی بھلائی کی دعا بعد میں ہے، ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرۃ حسنة و قنا عذاب النار ۔
سورہ جمعہ میں ہے کہ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کے فضل یعنی روزی روٹی کی تلاش میں زمین میں نکل جاؤ ۔
انسان مال و دولت حاصل کرے گا، تبھی وہ اپنے ماتحتوں کی کفالت کرسکے گا، غریبوں یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کرسکے گا اور اسی سے وہ مالی عبادت کو مثلا زکوٰۃ، صدقات و خیرات حج و عمرہ اور قربانی جیسی عبادت اور اعمال انجام دے سکے گا ۔
غرض یہ کہ مال حاصل کرنا ،دولت کمانا اور اس کے لیے جد و جہد کرنا یہ ناپسندیدہ عمل نہیں ہے بلکہ پسندیدہ عمل ہے ،ہاں دنیا کو اپنے اوپر مسلط کر لینا اور مال و دولت کی محبت میں رازق و مالک کو بھول جانا، خود فراموشی اور خدا فراموشی کی صفت پیدا کر لینا یہ بری چیز ہے ۔ کشتی کے لیے جتنا زیادہ پانی ہوگا، کشتی اتنی اچھی چلے گی ،لیکن جب تک پانی باہر رہے گا، اگر پانی کشتی کے اندر آنا شروع ہو جائے تو کشتی ڈوب جائے گی ،یہی مثال دولت کی ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں عام طور پر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ سب کے سب یا اکثر غریب اور مالی اعتبار سے کمزور تھے ،ایسا نہیں ہے کہ سارے صحابہ کرام مالی اعتبار سے کمزور اور مالی اعانت کے محتاج تھے، بلکہ ایک بڑی تعداد صحابہ کرام کی وہ تھی جو آج کی اصطلاح میں لاکھ پتی اور کروڑ پتی بلکہ ارب پتی تھے، ان کے یہاں دولت کی کثرت اور فراوانی تھی اور اعلیٰ پیمانے کی ان کی تجارت اور کاشت تھی ۔ بعض کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کے وارثین نے کلھاڑی سے توڑ توڑ کر سونے اور چاندی کو باہم تقسیم کیا ۔۔۔۔ لیکن وہ ہمیشہ آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی پر ترجیح دیتے تھے اور یہ مال و منال ان کے ذوق عبادت اور فکر آخرت میں رکاوٹ نہیں بنتا تھا ۔
خلاصہ یہ کہ مال ودولت اگر فتنہ، آخرت سے بے فکری اور خدا فراموشی کا سبب نہ ہو، اس کے ذریعہ ایمان و عمل کا سودا نہ ہو ،مال و دولت کو عزت کا معیار نہ سمجھا جاتا ہو اور مالی حقوق انسان ادا کرتا ہو، تو یہ مال کمانا بھی عین عبادت ہے ، البتہ اس کو عزت و ذلت کا معیار سمجھ لیا جائے اور عزت روپیے پیسے پر رکھ دیا جائے تو پھر عزت سر عام نیلام ہو جاتی ہے ۔ ہم یہاں ہندوستان میں غلامی کے دور کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ عزت جب پیسے پر رکھی جاتی ہے تو وہ کیسے سر عام نیلام ہونے لگتی ہے ۔۔
"برطانوی نوآبادیاتی دور میں ہندوستان میں ایک دفعہ ایک برطانوی افسر نے ایک ہندوستانی شہری کو تھپڑ مارا، اس پر ہندوستانی شہری نے ردعمل میں پوری طاقت سے افسر کو تھپڑ مارا اور اسے زمین پر گرا دیا،
افسر اس ذلت آمیز صدمے سے حیران رہ گیا اور وہاں سے چلا گیا، یہ سوچتا ہوا کہ ایک ہندوستانی شہری نے کیسے جرآتِ کی کہ وہ برطانوی فوج کے افسر کو تھپڑ مارے، جو کہ ایک ایسی سلطنت کا حصہ ہے ،جس پر سورج غروب نہیں ہوتا، وہ اپنے مرکز کی طرف گیا، تاکہ انہیں اس واقعے کی اطلاع دے اور اس شہری کو سزا دینے کے لئے مدد طلب کرے،
لیکن بڑے افسر نے اسے پرسکون کیا اور اپنے دفتر لے گیا، اور ایک پیسوں سے بھرا خزانہ کھول کر کہا: "خزانے سے پچاس ہزار روپے لے لو، اور اس ہندوستانی شہری کے پاس جا کر اس سے معافی مانگو، اور اسے یہ پیسے بطور معاوضہ دو۔”
افسر پاگل ہو گیا اور احتجاج کرتے ہوئے کہا: "مجھے اسے تھپڑ مارنے اور ذلیل کرنے کا حق ہے، اس نے مجھے تھپڑ مارا جب کہ اسے کوئی حق نہیں تھا، یہ میرے لئے، آپ کے لئے، اور ملکہ کی فوج کے لئے توہین ہے، بلکہ خود ملکہ کے لئے بھی توہین ہے۔”
بڑے افسر نے چھوٹے افسر سے کہا: "اسے ایک فوجی حکم سمجھو جسے تمہیں بغیر کسی بحث کے عمل کرنا ہے۔” افسر نے اپنے کمانڈر کے احکامات کیئ تعمیل کی، پیسے لے کر ہندوستانی شہری کے پاس گیا اور کہا:
"براہ کرم میری معذرت قبول کریں، میں نے آپ کو تھپڑ مارا اور آپ نے جواب دیا، ہم برابر ہو گئے ہیں، اور یہ پچاس ہزار روپے میری معذرت کے ساتھ تحفہ ہیں۔”
ہندوستانی شہری نے معذرت اور تحفہ قبول کیا اور بھول گیا کہ اسے اپنی زمین پر ایک نوآبادیاتی حکمران نے تھپڑ مارا تھا۔
اس وقت پچاس ہزار روپے ایک بڑی دولت سمجھی جاتی تھی، شہری نے اس رقم سے ایک حصہ سے گھر خریدا، ایک حصہ محفوظ کیا، اور ایک حصہ سے "رکشہ” (ایک تین پہیوں والی سواری جو ہندوستان میں استعمال ہوتی ہے) خریدا، اور کچھ سرمایہ کاری تجارت اور نقل و حمل میں کی۔
اس کی حالت بہتر ہوگئی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ کاروباری شخص بن گیا اور تھپڑ کو بھول گیا، لیکن انگریزوں نے ہندوستانی شہری کے تھپڑ کو نہیں بھولا۔
کچھ عرصے بعد، انگریز کمانڈر نے اس افسر کو بلایا جسے تھپڑ مارا گیا تھا اور کہا:
کیا تمہیں وہ ہندوستانی شہری یاد ہے جس نے تمہیں تھپڑ مارا تھا؟”
افسر نے کہا: "میں کیسے بھول سکتا ہوں؟”
کمانڈر نے کہا: "وقت آ گیا ہے کہ تم جاؤ اور اسے تلاش کرو اور بغیر کسی تمہید کے اسے لوگوں کے بڑے ہجوم کے سامنے تھپڑ مارو۔”
افسر نے کہا: "اس نے مجھے اس وقت تھپڑ مارا جب اس کے پاس کچھ نہیں تھا، آج جب کہ وہ کاروباری شخص بن چکا ہے اور اس کے پاس حامی گارڈ اور محافظ ہیں، تو وہ نہ صرف مجھے تھپڑ مارے گا بلکہ مجھے مار ڈالے گا۔”
کمانڈر نے کہا: "وہ تمہیں نہیں مارے گا، جاؤ اور حکم کی تعمیل کرو بغیر کوئی بحث کئے۔”
افسر نے اپنے کمانڈر کے احکامات کی تعمیل کی اور اس ہندوستانی کے پاس گیا، اس کے ارد گرد اس کے حامی، خادم، محافظ اور لوگوں کا مجمع تھا، اس نے اپنی طاقت سے ہندوستانی شہری کو تھپڑ مارا اور اسے زمین پر گرا دیا،
ہندوستانی شہری نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، یہاں تک کہ اس نے افسر کی طرف دیکھنے کی بھی جرآت نہیں کی،
افسر حیران ہو گیا اور تیزی سے اپنے کمانڈر کے پاس واپس آیا۔
کمانڈر نے افسر سے کہا: "میں تمہارے چہرے پر حیرت اور تعجب دیکھ رہا ہوں؟”
افسر نے کہا: "ہاں، پہلی بار اس نے مجھے زیادہ طاقت سے تھپڑ مارا تھا جب کہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا، اور آج جب کہ اس کے پاس طاقت ہے، اس نے کچھ کہنے کی بھی جرآت نہیں کی، یہ کیسے ممکن ہے؟”
انگریز کمانڈر: پہلی بار اس کے پاس صرف اس کی عزت تھی اور وہ اسے سب سے قیمتی چیز سمجھتا تھا، اس لئے اس نے اس کا دفاع کیا، لیکن دوسری بار جب اس نے اپنی عزت کو پچاس ہزار روپے میں بیچ دیا تو وہ اس کا دفاع نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس اس سے زیادہ اہم چیزیں ہیں۔
سچ ہے کہ