حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ: احوال و آثار
محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
_____________________
تاریخی پس منظر اور خاندانی نسب:
حضرتِ سیِّدُنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی وِلادت 38 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کے والدِ بزرگوار حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ تھے، جو حضرتِ سیِّدُنا علی رضی اللہ عنہ سے اظہارِ عقیدت کے لئے اپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے۔ اسی مناسبت سے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا نام بھی علی رکھا گیا۔ آپ کی کنیت ابومحمد، ابوالحسن، ابوالقاسم، اور ابوبکر تھی، جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کے القاب سجاد، زین العابدین، سیدالعابدین، اور امین تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرتِ سیِّدَتُنا شہر بانو رضی اللہ عنہا فارس کے آخری بادشاہ یزدجرد کی بیٹی تھیں۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی دو سال اپنے دادا حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی آغوشِ عاطفت میں گزارے، پھر دس سال تک اپنے تایا جان حضرتِ سیِّدُنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے زیرِ سایہ رہے اور تقریباً گیارہ سال تک اپنے والد ماجد حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں تربیت پائی اور علوم معرفت کی منازل طے کیں۔
خشیتِ الٰہی و خدا ترسی:
حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنے اکابرین کی پاکیزہ زندگیوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور خوفِ خدا میں یگانہ روزگار تھے۔ جب آپ وضو کرتے تو خوف کے مارے آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ گھر والے دریافت کرتے، ’’یہ وضو کے وقت آپ کو کیا ہوجاتا ہے؟‘‘ تو آپ فرماتے: ’’تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟‘‘
آپ خدا ترسی اور خشیت الٰہی سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک) نہیں پڑھی۔ لوگوں نے پوچھا کہ "حضور! آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے؟” آپ نے روتے ہوئے فرمایا، "مجھے ڈر ہے کہ میں لبیک کہوں اور اللہ کی طرف سے ‘لا لبیک’ کی آواز نہ آجائے، یعنی میں کہوں کہ ‘اے میرے مالک! میں تیرے دربار میں حاضر ہوں’ اور ادھر سے یہ جواب نہ آئے کہ ‘نہیں، تیری حاضری قبول نہیں’۔” لوگوں نے کہا، "حضور! پھر لبیک کے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟” یہ سن کر آپ نے بلند آواز سے "لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمة لک والملک لا شریک لک” پڑھا اور خوفِ خدا سے لرز کر اونٹ سے گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش میں آتے تو لبیک پڑھتے اور پھر بے ہوش ہو جاتے، اسی حالت میں آپ نے حج ادا کیا۔
کربلا کا واقعہ اور زندہ بچ جانا:
میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر جب 10 محرم الحرام کو بزمِ شہادت سجی تو آپ شدید بیمار تھے۔ چنانچہ آپ حسینی قافلے کے واحد مرد تھے جو اس معرکہ حق و باطل کے بعد زندہ بچے اور حسنی قافلے میں حسن مثنی زندہ بچے تھے.
اسم اعظم:
حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اسمِ اعظم ’’اَللہُ اَللہُ اَللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس تلوار ’’ذوالفقار‘‘ حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پاس تھی۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت مسور بن مخرمہ صحابی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے۔
غیبت سے بچنے کی ہدایت:
ایک مرتبہ آپ نے کسی کو غیبت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ’’غیبت سے بچو، کیونکہ یہ انسان نُما کُتّوں کا سالن ہے۔‘‘ حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے غیبت کرنے والوں کو انسان نُما کتّوں کے ساتھ اس لئے تشبیہ دی ہے کہ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں غیبت کو مردار کا گوشت کھانے کی مثل بتایا گیا ہے۔
بعد وصال سخاوت کا پتا چلا
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضي اللہ تعالی عنہ نے دو مرتبہ اپنی ساری جائیداد اللہ کی راہ میں خیرات کی۔ آپ مدینہ کے غرباء کو پوشیدہ طریقے سے مدد فراہم کرتے تھے، انہیں خبر بھی نہیں ہوتی تھی کہ یہ مدد کہاں سے آتی ہے۔ آپ کے وصال کے بعد انہیں پتا چلا کہ یہ امام زین العابدین رضي اللہ تعالی عنہ کی سخاوت تھی۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد 5، ص 336)
گالی دینے والے کے ساتھ خیر خواہی:
کسی نے حضرت سیدنا امام زین العابدین رضي اللہ تعالی عنہ کو گالی دی تو آپ نے اسے اپنا مبارک کرتا اور ایک ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔ کسی نے کہا: "آپ نے پانچ خصلتیں جمع کر لی ہیں: بردباری، تکلیف نہ دینا، اس شخص کو ایسی بات سے بچانا جو اسے اللہ سے دور کرتی، توبہ کی طرف راغب کرنا اور برائی کے بعد تعریف کی طرف رجوع کرنا۔”
دنیا میں پانچ حضرات بہت روئے ہیں:
دنیا میں پانچ حضرات بہت روئے ہیں: حضرت آدم علیہ السلام فراق جنت میں، حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام خوف خدا میں، حضرت فاطمہ زہرا رضي اللہ تعالی عنہا فراق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں، اور حضرت امام زین العابدین رضي اللہ تعالی عنہ واقعہ کربلا کے بعد حضرت حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی پیاس یاد کرکے۔
پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو:
حضرت سیدنا محمد بن علی باقر علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت امام زین العابدین علي بن حسین رحمۃ اللہ تعالی نے مجھے نصیحت کی کہ پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو: فاسق، بخیل، جھوٹے، احمق، اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے سے۔
زخمی کرنے والے کو انعام:
حضرت سیدنا امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی کنیز وضو کروا رہی تھی کہ اچانک لوٹا گرگیا جس سے آپ زخمی ہوگئے۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے کہا، "اللہ پاک فرماتا ہے: ‘وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ’ (اور غصہ پینے والے)”. آپ نے فرمایا، "میں نے غصہ پی لیا۔” اس نے کہا، "وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ” (اور لوگوں سے درگزر کرنے والے). آپ نے فرمایا، "اللہ تمہیں معاف کرے۔” پھر اس نے کہا، "وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ” (اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں). آپ نے فرمایا، "جا، تو آزاد ہے۔”
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کا مقام:
امام احمد کی مسند میں ابن ابی حازم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا مقام تھا؟ تو انہوں نے فرمایا، "جو مقام ان کا اب ہے کہ حضور کے پہلو میں آرام کر رہے ہیں” (مسند احمد بن حنبل، حدیث ذی الیدین، المکتب الاسلامی، بیروت 4/77) (فتاوی رضویہ، جلد 28، ص 99)
اہل سنت کی علامت:
امام زین العابدین حضرت سیدنا ابوالحسن علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے فرمایا، "رسول پاک، صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود پڑھنا اہل سنت کی علامت ہے” (القول البدیع، الباب الاول، ص 131)
کرامات:
ایک مرتبہ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے شوخی کرنا شروع کر دی۔ آپ نے اسے بٹھایا اور کوڑا دکھایا اور فرمایا: ’’سیدھی ہو کر چلو ورنہ یہ دیکھ لو!‘‘ چنانچہ اس کے بعد اس نے شوخی چھوڑ دی۔
حجاج ابن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ اسیر کئے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِ گراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا، تو زہری علیہ الرحمہ اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے تمنا تھی کہ میں آپ کی جگہ ہوتا۔ اس پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تجھے یہ گمان ہے کہ اس قید و بند سے مجھے کرب و بے چینی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور تَذَکُّر ہے۔
شہادت:
حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ 58 برس کی عمر میں ولید بن عبدالملک کے زہر دینے کی وجہ سے 94 ہجری میں شہادت کے منصب پر فائز ہوئے اور مدینہ شریف میں جنت البقیع میں آرام فرما ہوئے۔
اختتام:
حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی زندگی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم روحانی وراثت ہے۔ آپ کی عبادت، سخاوت، اور اخلاقیات ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی برکات سے ہمیں متمتع فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفر و منصور رکھے۔ آمین۔