✍️ مفتی ناصر الدین مظاہری
__________________
میں علامہ اقبال کی معرفت کا قائل, ان کی عارفانہ و عاشقانہ شاعری سے گھائل اور ان کی فراست وبصیرت پر کلی طور پر بچپن سے ہی مائل ہوں، جوں جوں ان کے کلام بلاغت نظام کو سمجھتاجاتا ہوں ان کی قدر اور زیادہ اور زیادہ ہوتی جاتی ہے، انھوں نے "طلوع اسلام ” کے عنوان سے ایک طویل نظم تحریر فرمائی ہے جس کا ایک شعر اچانک میرے ذہن میں آیا اور ساتھ ہی منظر ، پس منظر اور پیش منظر کا مشاہدہ بھی کراتا گیا، کیا شاندار شعر ہے فرماتے ہیں:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوس چھُپ چھُپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
یہ۔ شعر اس وقت اور سمجھ میں آیا جب دینی تعلیم کے نام پر، ثقافت اور تربیت کے نام پر، پروگرام اور جلسوں کے نام پر، تقسیم انعامات کی تقریب اور تقریر و نظم ونعت کے نام پر پہلے تو مدرسۃ البنات میں زیرتعلیم بچیوں کو تقریریں یاد کرائی گئیں، قراءت کی مشق کرائی گئی، نظم ونعت یاد کرائی گئی، کچھ عجیب سے مکالمے رٹوائے گئے اور پھر ان بچیوں کو اسٹیج پر لایا اور بلایا گیا، کچھ بچیاں بالغ تو کچھ مشتہات، کچھ عاقلات تو کچھ فارغات، کچھ متعلمہ تو کچھ معلمات سبھی کو اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا حکم منتظم یا منتظمہ کی طرف سے صادر ہوا۔ بچیاں تو بچیاں ہیں انھوں نے بتائے گئے نظام اور بنائی گئی ترتیب کے مطابق جو کچھ یاد کرنا تھا یاد کرلیا اور پھر بعض پردے میں تو بعض بے پردہ اسٹیج پر نمودار ہوئیں، اپنی خوبصورت آواز کا جادو جگایا، اپنی عشوہ طراز یوں، اداؤں اور بہترین گٹ اپ اور میک اپ سے ناظرین وحاضرین کو شاد کیا، بات اسی پرختم نہیں ہوئی ثقافت کے نام پر اسٹیج پر کچھ اس انداز میں بچیوں کو گھمایا گیا جس کو آپ گھمایا کم نچایا زیادہ کہہ سکتے ہیں، یہ بچیاں ہیں، نوخیز کلیاں ہیں، ان کے انگ انگ پر مردوں کی ہوس بھری نظر ہوتی ہے، ہر حرکت اور سکون کو شہوت پرست مرد انجوائے کرتا ہے، النظر سہم من سہام ابلیس۔ نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ یہ تیر بڑا خطرناک ہوتا ہے، یہ تیر بالکل نشانہ پر لگتا ہے، اس تیر کا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا، یہ وہ تیر ہے جو پورے وجود کو ہلا دیتاہے، نہ صرف مرد بلکہ بہت سی خواتین بھی اس تیر سے زخمی ہوجاتی ہیں، ہائے ہائے داغ دہلوی!
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
سچ کہوں تو یہ وہ چھپی ہوئی، دبی ہوئی ہوس خفتہ و خوابیدہ ہے جو اس موقع پر دو آتشہ ہوجاتی ہے، آپ کچھ بھی کہہ لیجیے سامعین وناظرین جنید و بایزید نہیں ہیں اور جنید و بایزید بھی ہوتے تب بھی ان کے سامنے ایسے پروگرام جائز نہ ہوتے۔ حضرت حسرت فرماتے ہیں:
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
بہت سے مدارس البنات میں بچیاں باقاعدہ ناٹک کرتی ہیں، کچھ بوڑھی ماں بنتی ہیں کچھ پڑوسن، کچھ دیگر اورپھر ایک عجیب و غریب منظر پیش ہوتا ہے، یہ بچیاں بے پردہ بھی ہوتی ہیں، ان کی نازنین ادائیں بھی ہوتی ہیں، ان کی پرکشش حرکات بھی ہوتی ہیں، ایک ایک چیز سے مرد حضرات محظوظ ہوتے ہیں۔ واللہ! یہ ہوس کا بدلہ ہوا چولہ ہے، یہ دل کی وہ امنگ وترنگ ہے جو آپ ان کچی کلیوں سے بجھارہے ہیں، شہوت شہوت ہے، چاہے کسی پختہ عمر عورت کو دیکھ کر ہو یا کوئی نوخیز بچی اس کا ذریعہ بنے۔
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
سنو سنو!!
حکیم الامت حضرت تھانوی لکھتے ہیں کہ بے پردہ اور بے حیا عورتوں سے بھی اپنی عورتوں کو پردہ کراؤ کیونکہ ان کے زہریلے اثرات اور ان کی حرکات وسکنات کا اثر بلاشبہ ان پر پڑے گا۔
بچیوں کے دینی مدارس ویسے بھی کانٹوں بھرا سیج ہیں، چہ جائے کہ آپ ایسے ایسے پروگرام کرکے ماحول اورمعاشرہ کو مزید گندہ اور پراگندہ کریں۔