محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
______________________
بنگالہ کی تاریخ میں حاجی الیاس شاہی سلطنت (۱۳۴۲ء – ۱۵۳۸ء) ایک اہم اور فیصلہ کن دور کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ دور نہ صرف سیاسی اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے اہم تھا بلکہ اسلامی تہذیب، فن تعمیر، اور صوفیانہ تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ حاجی الیاس شاہی خاندان کے زیر سایہ، بنگالہ نے ایک ایسی ریاست کی شکل اختیار کی جو اسلامی اقدار اور روایات کی امین تھی، اور جس نے آنے والی صدیوں کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھی۔
حاجی الیاس شاہی سلطنت کا قیام اور استحکام:
۱۳۴۲ء میں حاجی الیاس شاہ نے بنگالہ میں ایک خودمختار سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس وقت دہلی سلطنت کی گرفت کمزور ہو چکی تھی، اور اس سیاسی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حاجی الیاس شاہ نے بنگالہ میں اپنی حکمرانی قائم کی۔ حاجی الیاس شاہ نے نہ صرف ریاست کو مستحکم کیا بلکہ اسلامی قوانین اور اصولوں کے مطابق اسے چلایا۔ ان کی قیادت میں بنگالہ ایک مضبوط اور خود مختار ریاست کے طور پر ابھرا، جس نے بیرونی خطرات کا کامیابی سے سامنا کیا اور اندرونی طور پر بھی استحکام کو فروغ دیا۔
ادینہ مسجد: اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار:
حاجی الیاس شاہی سلطنت کے دور میں بنگالہ میں اسلامی فن تعمیر نے ایک نیا عروج حاصل کیا، جس کی سب سے نمایاں مثال ادینہ مسجد ہے۔ ادینہ مسجد کو سلطان سکندر شاہ نے ۱۳۶۳ء میں تعمیر کروایا، جو حاجی الیاس شاہ کے بیٹے اور جانشین تھے۔ یہ مسجد نہ صرف اپنے وقت کی سب سے بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے بلکہ آج بھی اسلامی فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ مانی جاتی ہے۔
ادینہ مسجد کی تعمیر میں اسلامی، فارسی، اور مقامی بنگالی طرز تعمیر کا حسین امتزاج دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مسجد کی وسیع و عریض صحن، بلند محرابیں، اور خوبصورت نقش و نگار اسلامی فن تعمیر کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھر اور دیگر مواد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بنگالہ کے حکمرانوں نے کس قدر محنت اور جوش و جذبے سے اس مسجد کو تعمیر کروایا۔ ادینہ مسجد نہ صرف ایک عبادت گاہ تھی بلکہ اسلامی تعلیمات اور بنگالہ کے عوام کے روحانی جوش و خروش کی علامت بھی تھی۔
مخدوم علاء الحق پنڈوی اور نور قطب عالم پنڈوی الیاس شاہی عہد کے دو ممتاز صوفی بزرگ:
بنگالہ کی اسلامی تاریخ میں صوفیاء کا کردار انتہائی اہم رہا ہے، اور حاجی الیاس شاہی سلطنت کے دور میں یہ کردار اور بھی نمایاں ہو گیا۔ اس دور میں مشہور صوفی بزرگ مخدوم علاء الحق پنڈوی اور ان کے صاحبزادہ نور قطب عالم پنڈوی نے بنگالہ میں اسلامی تعلیمات اور صوفیانہ تحریکات کو فروغ دیا۔ یہ دونوں بزرگ چشتیہ سلسلے سے وابستہ تھے اور بنگالہ میں ان کا اثر و رسوخ بے حد گہرا تھا۔
مخدوم علاء الحق پنڈوی: بنگالہ میں اسلامی تعلیمات کے مبلغ:
مخدوم علاء الحق پنڈوی (م. ۱۳۳۷ء) بنگالہ کے مشہور صوفی بزرگ اور عالم دین تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا اور بنگالہ میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا۔ ان کا مرکز پنڈوہ تھا، جو اس وقت بنگالہ کا ایک اہم روحانی اور علمی مرکز تھا۔ مخدوم علاء الحق پنڈوی نے اپنے وعظ و نصیحت سے بنگالہ کے عوام کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا اور ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کی۔ ان کے علم و عرفان اور روحانی کرامات نے بنگالہ کے عوام اور حکمرانوں پر گہرا اثر ڈالا۔
نور قطب عالم پنڈوی کے ہاتھوں صوفیانہ تعلیمات کا فروغ:
نور قطب عالم پنڈوی (م. ۱۴۱۵ء) مخدوم علاء الحق کے صاحبزادہ اور جانشین تھے۔ وہ بھی اپنے والد کی طرح ایک عظیم صوفی اور عالم تھے۔ نور قطب عالم نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھا اور بنگالہ میں صوفیانہ تعلیمات کو مزید فروغ دیا۔ وہ نہ صرف بنگالہ کے عوام میں بلکہ شاہی خاندان میں بھی انتہائی محترم تھے۔ ان کے مریدوں میں حاجی الیاس شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے، جنہوں نے ان سے روحانی تربیت حاصل کی۔ نور قطب عالم پنڈوی نے بنگالہ میں صوفیانہ تحریکات کو ایک نئی جہت دی اور بنگالہ کی اسلامی تہذیب کو مستحکم کیا۔
حاجی الیاس شاہی سلطنت اور صوفیاء کا گہرا تعلق:
حاجی الیاس شاہی خاندان اور بنگالہ کے صوفیاء کے درمیان ایک مضبوط اور گہرا تعلق تھا۔ حاجی الیاس شاہ اور ان کے جانشینوں نے صوفیاء کو نہایت عزت و احترام دیا اور ان کی تعلیمات کو پھیلانے میں بھرپور تعاون کیا۔ یہ تعلق نہ صرف روحانی سطح پر تھا بلکہ سیاسی سطح پر بھی اس نے بنگالہ کی سلطنت کو مستحکم کیا۔ صوفیاء کی دعائیں اور ان کی روحانی طاقت نے بنگالہ کے حکمرانوں کو عوام میں محبوب اور معتبر بنا دیا۔
صوفیاء کے اثرات اور تاریخی عمارات:
حاجی الیاس شاہی سلطنت کے دور میں بنگالہ کی تاریخی عمارات، خصوصاً ادینہ مسجد، صوفیاء کے اثرات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان عمارات کی تعمیر میں صوفیاء کی مشاورت اور دعائیں شامل تھیں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ اس دور میں اسلامی فن تعمیر اور صوفیانہ تعلیمات کو کس قدر اہمیت دی جاتی تھی۔ پندوہ کی مساجد اور مدارس بھی اس دور کی عظمت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی گواہ ہیں۔
نتیجہ:
حاجی الیاس شاہی سلطنت کا دور بنگالہ کی تاریخ میں ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں اسلامی تہذیب، فن تعمیر، اور صوفیانہ تعلیمات کو بے مثال ترقی ملی۔ ادینہ مسجد جیسی عمارات اسلامی فن تعمیر کی عظیم مثالیں ہیں، جبکہ مخدوم علاء الحق پنڈوی اور نور قطب عالم پنڈوی جیسے بزرگوں کا اثر آج بھی بنگالہ کی روحانی زندگی میں موجود ہے۔ حاجی الیاس شاہی خاندان نے نہ صرف بنگالہ کی سیاسی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ صوفیاء کے تعاون سے مذہبی اور روحانی ترقی کو بھی فروغ دیا۔ یہ دور نہ صرف بنگالہ کی تاریخ کے لیے اہم تھا بلکہ اسلامی تاریخ کا بھی ایک درخشاں باب ہے تھا۔