تحریک ریشمی رومال: بَہارجو اب ہندمیں آئی ہوئی ہے!
مفتی خالدانورپورنوی،المظاہری
1857کی جنگ آزادی سے 6؍سال قبل 1851میں یوپی کے بریلی شہرمیں ،دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم ، حضرت مولانامحمودحسن ؒ پیدا ہوئے ، جنہیں دنیاشیخ الہند کے نام سے جانتی ہے، 1857کے ہنگامی حالات اور عام مسلمانوں بالخصوص علماء کرام کی قربانیوںاور شہادتوں کے دنوں کو انہوں نے اپنی کم عمری میں ہی بہت قریب سے دیکھاتھا،اس لئے فطری طورپر وہ انگریز کے ناپاک عزائم اورہندوستان کی پاک سرزمین پر ان کے ناپاک وجود سے بہت ہی نالاں اور پریشان تھے،اس لئے دارالعلوم دیوبند سے ہی انہوں نے اس کی شروعات کی ،اور انگریزکا مقابلہ کس طرح کیاجائے ،اس کیلئے افرادسازی اور مظبوط پلاننگ کا آغاز کردیا،1878 میں انجمن ثمرۃ التربیت قائم کیا، 1909میں جمعیۃ الانصارکی بنیادڈالی،اور اس کے ذریعہ دوطرفہ محاذآرائی کی،ایک تو ملک کے اندراورایک ملک سے باہر،اور شیخ الہند حضرت مولانامحموالحسن ؒہی کی تحریک کی وجہ سے ہی انگریز کے خلاف جہاد کی گونج ملک سے باہر بیرون ملک تک پہونچ گئی۔
ترکی اورعالم اسلام کے حالات بھی اچھے نہیں تھے،مسلمانوں کے ساتھ مظالم اور ناانصافیوں کے واقعات لگاتارپیش آرہے تھے،ان واقعات پر بھی شیخ الہندحضرت مولانامحمودالحسن دیوبندیؒ کی گہری نظر تھی،مگرملک کے حالات کسی تیزتحریک کیلئے سازگارنہ تھے،مسلمانوں پرحیرانی اورافسردگی طاری تھی،وہ ثریاسے تحت الثریٰ میں جاگرے تھے ، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کس طرح حاصل کریں ،ایسے اصحاب بھی بہت کم نظرآرہے تھے جن کے خلوص پراعتماد کیا جا ئے ۔اس لئے حضرت شیخ الہندؒ نے ایک نقشہ ٔ عمل تیار کیا ، اور اس میں نہایت ہی قابل اعتماد لوگوں کوشامل کیا،1915ء میں مولاناعبیداللہ سندھیؒ کوکابل کیلئے روانہ کیا،اور سب کچھ صیغہ راز میں رکھاگیا،مولاناعبیداللہ سندھی ؒ خودکہتے ہیں:کہ مجھے کوئی مفصل پروگرام نہیں بتایا گیا ، مگرجب میں وہاں پہونچاتومعلوم ہواحضرت شیخ الہندجس جماعت کے نمائندہ ہیں،اس کی پچاس سال کی محنتوں کا حاصل میرے سامنے غیرمنظم شکل میں تعمیل حکم کیلئے تیارہے۔
اس سے سمجھ میں آتاہے کہ 1865ء ہی میں تحریک شیخ الہندکی بنیادپڑچکی تھی،مولاناابوالکلام آزادؒ، ڈاکٹر انصاریؒ،حکیم اجمل خاںؒ،مولانامحمدعلیؒ،اس جماعت کے خاص ارکان تھے،اورشیخ الہندؒ اس جماعت کے نمائندہ تھے،اس تحریک کامقصدیہ تھاکہ افغانستان کوآمادہ کیاجائے کہ ایک بارپھر جہاد اپنا مشن بنالیں،اورترکی خلافت کو اس تحریک کاپشت پناہ بنایا جا ئے ، اور دیگر اسلامی مملکت کے تعاون سے انگریزوں سے مقابلہ کیاجائے۔
حجازپرترکوں کی حکومت تھی،اس لئے اہم اورکلیدی عہدوں پرترک افسران ہی رکھے جاتے تھے،حجاز کا گورنر جنرل غالب پاشاتھا،جومکہ مکرمہ میں رہتاتھا،اورمدینہ کا گورنراس کے ماتحت تھا،شیخ الہندؒ نے مکہ مکرمہ کے ایک با اثر ہندوستانی تاجر کے واسطہ سے غالب پاشاسے ملاقات کی،اوراپنالائحہ عمل ان کے سامنے پیش کیا۔ پوری گفتگوکے بعد غالب پاشانے مکمل تعاون کایقین دلایا،ان کی تحریرجس میں مجاہدین آزادی ہندکوہرطرح کے تعاون کایقین دلایا گیا تھا،ہندوستان بھیج دی گئی،ان ہی کے توسط سے وزیرجنگ انور پاشا،اورکمانڈرانچیف جمال پاشا سے شیخ الہندؒ کی مسلمانوں کی مظلومیت،برطانوی حکومت کی چیرہ ہ دستیوں،اوراس سے نجات کے منصوبہ اورلائحہ عمل کے بارے میں تفصیلی گفتگوہوئی،دونوں افسران کی طرف سے اظہار اطمینان کرلیاگیا تو شیخ ا لہند نے درخواست کی کہ آپ حضرات کی طرف سے کوئی ایسی تحریر مل جائے کہ جس سے اہل ہندکو حوصلہ ملے اورترکی حکومت کے تعاون کاانہیں یقین ہوجائے ، تو زیادہ بہترہوگا۔انہوں نے وعدہ کیا کہ دمشق جاکر اس کام کی تکمیل کردیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: