Slide
Slide
Slide

حضرت مجدد الف ثانی: احوال و آثار

حضرت مجدد الف ثانی: احوال و آثار

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

__________________

حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کا شمار بر صغیر کی ان عظیم عبقری ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم و عمل اور قلمی و فکری جد و جہد سے نہ صرف اصلاحات و تجدیدات کیں، بلکہ دین کی روح اور اصل ہیئت کو بچانے اور زندہ رکھنے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ آپ کا اصل نام احمد تھا اور آپ 971ھ بمطابق 1563ء کو سرہند، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے، اسی نسبت سے آپ فاروقی کہلاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں آپ کو "مجدد الف ثانی” اور "قیوم زمان” کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے، جو اس بات کا اعتراف ہیں کہ آپ نے ایک ہزار سال بعد دین کی تجدید و تقییم کی۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم:

حضرت مجدد الف ثانی کی ابتدائی زندگی دینی تعلیم اور روحانی تربیت کے ماحول میں گزری۔ آپ کے والد ماجد شیخ عبد الاحد ایک جلیل القدر عالم اور صاحب طریقت تھے۔ آپ نے اپنے والد سے ابتدائی علوم حاصل کیے اور پھر مولانا کمال کشمیری، شیخ یعقوب کشمیری، اور قاضی بہلول بدخشی جیسے عظیم اساتذہ سے اکتسابِ علوم کیا۔ 998ھ میں آپ نے علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کرکے فراغت پائی۔

سلاسل طریقت اور روحانی تربیت:

حضرت مجدد الف ثانی کو مختلف سلاسل طریقت میں اعلیٰ مقام حاصل ہوا۔ آپ کو حضرت شیخ یعقوب کشمیری سے سلسلۂ سہروردیہ کی اجازت و خلافت ملی، جبکہ سلسلۂ چشتیہ کی اجازت و خلافت اپنے والد ماجد شیخ عبد الاحد سے حاصل کی۔ آپ کو سلسلۂ قادریہ کی اجازت حضرت شاہ سکندر کیتھلی سے ملی، اور حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نے آپ کو سلسلۂ نقشبندیہ کی خلافت عطا کی۔ آپ کی روحانی تربیت نے آپ کو ایک بلند پایہ صوفی اور ایک اصلاح پسند عالم بنایا۔

علمی خدمات اور درس و تدریس:

حضرت مجدد الف ثانی نے آگرہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، جہاں ملک بھر کے نامور علماء آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوتے تھے۔ آپ نے اپنی علمی بصیرت اور فکری رہنمائی سے اسلامی دنیا میں نہایت اہم اصلاحات کیں۔ آپ نے خاص طور پر دینِ الٰہی جیسے فتنہ کا مکمل انسداد کیا جو مغل بادشاہ اکبر نے متعارف کرایا تھا۔ آپ نے اسلامی عقائد اور شریعت کی تجدید و احیاء کے لیے بھر پور جد و جہد کی۔

اکبری فتنہ اور دین الٰہی کا رد:

مغل بادشاہ اکبر نے اپنے دور حکومت میں "دین الٰہی” کے نام سے ایک نیا مذہب متعارف کرایا تھا، جس کا مقصد مختلف مذاہب کو ملا کر ایک نیا مذہب قائم کرنا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اس فتنہ کے خلاف زبردست علمی اور عملی محاذ قائم کیا۔ آپ نے اکبر کے اس نئے دین کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف قرار دیا اور اس کی شدید مخالفت کی۔ آپ کی کاوشوں کی بدولت یہ فتنہ اپنی جڑوں سمیت ختم ہوگیا اور اسلامی عقائد کی حفاظت ممکن ہوئی۔

نظریۂ وحدة الشهود کے عظیم شارح:

حضرت مجدد الف ثانی نے تصوف میں بھی نہایت اہم خدمات انجام دیں۔ آپ نے شیخ علاء الدولہ سمنانی کے نظریہ "وحدة الشهود” کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ اس کے عظیم شارح اور بانیِ ثانی بنے۔ آپ نے اس نظریہ کی مکمل و چشم کشا تشریحات کیں جن کی تفصیل آپ کی تصانیف اور مکتوبات میں بھر پور ملتی ہے۔

قید و بند کی صعوبتیں:

حضرت مجدد الف ثانی کی زندگی میں مشکلات اور صعوبتیں بھی آئیں۔ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں، جب آپ نے بادشاہ کے سامنے تعظیمی سجدہ کرنے سے انکار کیا تو آپ کو 1028ھ میں قلعہ گوالیار میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی ایک سال تک جاری رہی، اور پھر آپ کو لشکر شاہی کے ساتھ پابند سلاسل کیا گیا۔ لیکن ان مشکلات نے آپ کے عزم و حوصلہ کو متزلزل نہیں کیا اور آپ اپنے مشن پر ثابت قدم رہے۔

اولاد امجاد:

حضرت مجدد الف ثانی کے سات صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں۔ آپ کے صاحبزادے علم و فضل کے آسمان کے درخشندہ ستارے تھے۔ خاص طور پر خواجہ محمد معصوم نہایت جلیل القدر عالم اور صاحب ولایت تھے۔ آپ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم و عرفان کا چراغ روشن رکھا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر بھی آپ ہی کے مرید تھے اور آپ کے فیض یافتہ تھے۔

تصانیف عالیہ:

حضرت مجدد الف ثانی کی تصانیف اسلامی علوم اور تصوف کے عظیم ذخائر ہیں۔ آپ کی سب سے مشہور تصنیف "مکتوباتِ امام ربانی” ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور اسلامی تاریخ و تصوف میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے "الرسالة في إثبات النبوة”، "تعليقات لعوارف”، "الحاشية على شرح العقائد الجلالي”، "المقدمة السنية في انتصار الفرقة السنية”، "مبدأ ومعاد”، اور "معارف لدنیہ” جیسی عظیم کتابیں تصنیف کیں۔

خلفاء اور مریدین:

حضرت مجدد الف ثانی کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ہر ایک اپنی جگہ آفتاب و ماہتاب تھا۔ آپ کے خلفاء نے آپ کی تعلیمات کو آگے بڑھایا اور اسلامی دنیا میں آپ کے مشن کو زندہ رکھا۔

وصال:

حضرت مجدد الف ثانی نے اپنی زندگی کا آخری حصہ سرہند میں خلوت نشینی میں گزارا۔ آپ 29 صفر 1034ھ بمطابق 1624ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا مزار سرہند شریف میں ہے جو آج بھی عقیدت مندوں کے لیے مرجع خاص و عام ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی کی زندگی اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آپ کی خدمات نے اسلامی دنیا کو ایک نئی روشنی بخشی اور آپ کی تعلیمات آج بھی مسلمانوں کے لیے ایک مشعل راہ ہیں۔ آپ نے اسلامی شریعت اور تصوف کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اسے نئے دور کی ضروریات کے مطابق پیش بھی کیا۔ آپ کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور آپ کی خدمات اسلامی دنیا کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: