Slide
Slide
Slide

الصادق الامین:ملت آپ کی تعلیمات کو فراموش کرچکی

الصادق الامین:

ملت آپ کی تعلیمات کو فراموش کرچکی

✍️ جاوید جمال الدین

_________________

دنیا میں ہزاروں برسوں سے عظیم شخصیتوں نے جنم لیا ہے ،لیکن ان کی زندگی کی عظمت کو ان کے کسی کار نامہ کے بعد ہی شہرت حاصل ہوئی ، پیغمبر آخر الزمان محمد صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت کو یہ خوبی حاصل ہے کہ آپ کی تمام زندگی ایک بہترین دور سے تعبیر کی جاتی ہے۔ قبل رسالت کے چالیس سال کا عرصہ اخلاقی لحاظ سے اس قدر ممتاز تھا کہ قریش مکہ آپؐ کوسچا اور دیانت دار پکارتے تھے اور اس کا سلسلہ اس وقت جاری رہا جب آپ مکہ والوں کی اماتیں حضرت علی کو سونپ کر حضرت ابو بکر صدیق رض کے ساتھ یثرب ہجرت کرگئے تھے۔

حضرت محمدؐ کے بارے میں قریش مکہ کا اتفاق تھا کہ آپ ایک نہایت ایماندار انسان ہی نہیں بلکہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے ہیں اور امانت میں خیانت نہیں کرسکتے ہیں،جس کی بنیاد پر آپ کا مشہور لقب الصادق الامین پڑ گیا۔
قبل نبوت ہونے والے تمام عمل در اصل اللّہ تعالٰی کی جانب سے ایک ایسا مکمل اور جامع منصوبہ تھا،جس میں ان لوگوں سے آپ کے صادق و دیانتدار ہونے کی تصدیق کروانی تھی ،جن کے درمیان آپ کونبوت عطا کرنی تھی۔
عالم یہ تھا کہ نبوت سے تقریباً پانچ سال قبل قریش مکہ نے بیت اللہ کی تعمیر نو کی اور جب حجر اسود کے نصب کرنے پرسرداران قریش کے درمیان شدیداختلا ف پیدا ہوااور جنگ کے میدان میں فیصلہ کی نوبت آئی اوراس وقت ایک معمر شخص کے اس مشورہ کو قبول کر لیا گیا کہ اگلی صبح بیت الله میں سب سے پہلے داخل ہونے والے انسان کافیصلہ تسلیم۔کیا جائے گا۔
اللہ تعالٰی کے منصوبہ پر باقاعدہ عمل ہو رہا تھا۔ دوسری صبح لوگوں نے دیکھا تو پکار اٹھے امین آگیا ہم سے کو اس کا فیصلہ قبول ہے۔ آپ بڑی میانہ روی سے بیت اللہ میں داخل ہوئے اور جس سادگی اور بحسن و خوبی اس مسئلہ کو آپ نے حل کیا اسے مورخین نے سنہری حرفوں میں لکھا ہے۔

پہلی وحی نازل ہونے کے بعد آپ پر گھرابٹ طاری تھی ۔ گھر لوٹ کر آپؐ نے حضرت خدیجہ کو تمام حالات سے آگاہ کیا تو حضرت خدیجہ نےجواب میں فرمایا ہے ” اے ابو قاسم ، خدا یقیناً آپ کی حفاظت کرے گا کیونکہ آپ سچ بولتے ہیں، دیانتدار ہیں اور ہر برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرتے ہیں ” مزکورہ الفاظ میں حضرت خدیجہ نے جن اچھا ئیوں کی نشاندہی کی ہے وہ قبل نبوت کی چیز تھی۔
اس سے قبل نبوت حاصل ہونے کے بعد گھر لوٹتے وقت ایک بوڑھے کا ہن نے آپ کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی، آپ کو اس موقع پر دیکھ کر کہا ” کس قدر شاندار، خوبصورت ، شریف اور باعظمت انسان ،ہبل (بت) کی قسم میں نے پہلے ایسا عظیم انسان نہیں دیکھا۔

وحی کے نزول کے بعد ام المومنين حضرت خدیجہ جب اپنے چچا ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ،جو توریت و انجیل پر عبور رکھتےتھے ،انہوں نے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے بعد بلا بھجھک کہاکہ آپ وہ ہی پیغمبر آخرالزمان ہیں، جن کاذکر توریت اور انجیل میں اورموسی وعیسی نے جن کی تصدیق کی اور ابراہیم کے جن کے لئے دعاء کی تھی۔
آپ کے بارے میں عام خیال تھاکہ زیادہ ایماندار اور امانتدار کے علاوہ پسندیدہ انسان ہیں۔اور سمجھدار کہتے کہ
آج جب آپ کے بال سفید ہونے لگے ہیں اور انہوں نے وہ کلام پیش کیا جسے تم سن رہے ہو تو تمہارا حال یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ یہ شخص جادوگر ہے ۔ شاعر اور مجنوں ہے۔ خدا کی قسم میں نے محمد کی باتیں سنی ہیں وہ یہ کچھ نہیں ہے ۔
حضرت محمد سارے عالم کے لئے مبعوث فرمائے گئے اس لیے آپ نے ہمسایہ ممالک کے سربرا ہوں کو دعوتی خطوط روانہ کئے۔ روم کا بادشاہ ہر قل جوان دنوں بیت المقدس فارس پر فتحیابی کے شکریے کے لیے آیا ہواتھا۔ بیت المقدس میں موجود تھا ۔ جب دعوت نامہ موصول ہوا تو اس نے عرب کے باشندوں کو دربار میں طلب کیا۔ اتفاق سے مکہ کے چند افرادجن میں ابو سفیان بھی شامل تھے ۔
( واقعہ قبول اسلام سے قبل کا ہے)۔ دربار میں حاضری پر بادشاہ نے دریافت کیاکہ جس شخص نے تمہارے شہر میں رسول ہونے کا دعوی کیا ہے اس کا قریبی رشتہ دار کون ہے۔ ابو سفیان کو پیش کیا گیا ۔ ہر قل : کیا وہ عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرتا ہے ؟ ابو سفیان ۔ ابھی تک نہیں کی ہے۔
ہر قل – جب اس نے انسانوں کے معاملے میں جھوٹ نہیں کہا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے
خدا کے معاملہ میں اتنا بڑا جھوٹ گھڑ لیاہو، اللہ تعالٰی نے آپ کی عظمت کا اعتراف ان لوگوں کی زبان سے کروایا جو آپ کے سخت مخالف تھے ۔
قبل نبوت پیش ہونے والے یہ عمل دراصل اللہ کی جانب سے ایک مکمل اور جامع منصوبہ تھا،جس میں آپ کے صادق و دیانتدار ہونے کی تصدیق کروانی تھی،جن کے درمیان آپ ص جو نبوت عطاکردی تھی۔
مندرجہ بالا تفصیل نبوت ص سے پہلے کی ہیں، اس کے بعد رسول اللنے دودورمکی اور مدنی کا سامنا کیا۔جسے سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے منسوب کیا جاتا ہے،مکہ مکرمہ کادورصبر،غربت ،پسماندگی اور جدوجہدکا دور تھا۔ہجرت کے بعد مدینہ منورہ کا زمانہ اللّہ کی مدد ،نصرت اور سرفرازی کا تھا۔مائیکل ہارٹ سمیت سینکڑوں غیر مسلمان حضرات نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی کا ایک نمونہ قرار دیا۔ایک ایسی شخصیت جومذہب، سیاست، سماجیت،جنگ وجدل ہی نہیں بلکہ امور خانہ داری میں بھی ماہر رہا۔اس کی تعلیمات میں والدین ،رشتہ داروں ،اہل خانہ اور ہمسایوں کے حقوق کو ہرممکن ترجیح دی گئی ہے۔یہی سب تھاکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو اس نے دنیا کے معاشرے پر اثر ڈالنے والی شخصیات میں اوّل نمبر دیا ہے۔
اب ہم اپنے آج کے مسلم معاشرے کا جائزہ لیں تو دور دور تک تاریکی چھائی ہوئی ہے اور دینی اور دنیوی تعلیم سے بھی کافی فاصلے پر ہیں اور کوئی پُر سان حال نہیں ہے۔عیدمیلادالنبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے جشن اور تقریبات کا انعقاد دھوم دھام سے کرتے ہیں۔مگر مسجدیں ویران رہتی ہیں،خصوصی طور پر نماز فجر میں نوجوانوں کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا یے۔حالانکہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "نماز میرے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔”

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: