مختلف المذاہب ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ہدایات: سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
_________________
اسلام ایک جامع اور عالمگیر دین ہے جو انسانیت کے تمام پہلوؤں کو احاطہ کرتا ہے، چاہے وہ عقائد ہوں، عبادات ہوں، اخلاق ہوں یا دیگر سماجی معاملات ہوں۔ سیرت نبوی ﷺ یعنی نبی کریم ﷺ کی زندگی ہر مسلمان کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے جس معاشرے میں زندگی گزاری، وہ بھی متنوع تھا، جہاں مختلف عقائد و مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے تھے۔ اسی بنا پر سیرت نبوی ﷺ مختلف المذاہب معاشروں میں مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط رہنمائی فراہم کرتی ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو ان معاشروں میں کیسے رہنا چاہیے۔
1. روا داری اور امن پسندی
نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ایک اہم سبق روا داری اور امن پسندی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے پوری زندگی میں ہر اس فرد اور گروہ کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، جو آپ ﷺ کے ساتھ مختلف عقائد یا نظریات رکھتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں، جہاں بیشتر لوگ مشرک تھے اور نبی ﷺ کے مخالف تھے، آپ ﷺ نے کبھی بھی ان کے ساتھ زیادتی نہیں کی اور ہمیشہ امن و محبت کا پیغام دیا۔
اسی طرح، جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے، تو وہاں کے مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں، جیسے یہودیوں، مشرکین اور عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا، جو "میثاقِ مدینہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ اسلامی حکومت کی پہلی مثال ہے جس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو مذہبی آزادی اور حقوق دیے گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ امن و رواداری کا قائل ہے۔
2. عدل و انصاف کا قیام: بنیادی اسلامی اصول
اسلامی اصولوں میں عدل و انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور سیرت نبوی ﷺ اس کی بہترین مثال فراہم کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ انصاف پر زور دیا، چاہے معاملہ مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا۔ آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی کے ساتھ تعصب یا جانب داری کا رویہ اختیار نہیں کیا اور ہمیشہ عدل و انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
*”اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے گواہی دو، خواہ وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔”* (سورۃ النساء: 135)
نبی کریم ﷺ نے اپنے فیصلوں میں اس آیت کی تعلیمات پر عمل کیا اور مختلف المذاہب لوگوں کے ساتھ انصاف کے اصولوں پر مبنی تعلقات قائم رکھے۔ آج کے دور میں بھی، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے معاشروں میں انصاف کے علمبردار بنیں، اور جہاں کہیں بھی ہوں، عدل و انصاف کو قائم رکھیں۔
3. تعامل اور خیرخواہی: انسانیت کا احترام
نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہر انسان کا احترام کیا جائے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ سیرت میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن میں آپ ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک اور خیرخواہی کا برتاؤ کیا۔
مثال کے طور پر، ایک بار نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک یہودی کا جنازہ گزرا، تو آپ ﷺ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ صحابہ کرامؓ نے حیرت سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا:
"کیا یہ ایک انسان نہیں تھا؟”۔
یہ واقعہ انسانیت کے احترام کی بہترین مثال ہے۔ سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کریں اور ہر انسان کو عزت و احترام دیں، چاہے اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو۔
4. دعوتِ دین: حکمت اور موعظت حسنہ کے ساتھ تبلیغ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
*”اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظت حسنہ کے ساتھ دعوت دو اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو۔”* (سورۃ النحل: 125)
یہ آیت ہمیں تبلیغ کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کا طریقہ بتاتی ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ دین کی دعوت نرمی اور محبت کے ساتھ دی، اور لوگوں کے ساتھ حکمت کے ساتھ گفتگو کی۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی پر زور یا زبردستی نہیں کی، بلکہ دلائل اور حسن اخلاق کے ذریعے دین اسلام کی تعلیمات پیش کیں۔
مختلف المذاہب ملک میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کی دعوت دیتے وقت نرمی اور حکمت سے کام لیں۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ دین کی دعوت دلوں کو جیتنے کے ذریعے دی جائے، نہ کہ زور زبردستی سے۔
5. قانون کی پاسداری: اسلامی تعلیمات کا لازمی جزو
نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ قانون کی پاسداری اور سماجی ضوابط کا احترام کیا۔ مدینہ کے میثاق میں، آپ ﷺ نے مختلف قوموں کے درمیان قوانین اور اصولوں کو متعین کیا تاکہ معاشرہ ایک پرامن اور منظم طریقے سے چل سکے۔
آج کے دور میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس ملک میں بھی رہتے ہیں، وہاں کے قوانین کی پاسداری کریں جب تک کہ وہ قوانین اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق، ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کے قوانین کا احترام کرے اور ان پر عمل کرے۔
6. فلاحی کاموں میں شرکت: انسانی ہمدردی اور بھائی چارہ
نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ مختلف المذاہب معاشروں میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فلاحی کاموں میں شریک ہوں اور دوسروں کی مدد کریں، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"لوگوں میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔”
یہ حدیث سیرت نبوی ﷺ کا ایک اہم پہلو اجاگر کرتی ہے کہ مسلمانوں کو انسانیت کی خدمت میں مصروف رہنا چاہیے اور معاشرتی بھلائی کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے۔
7. اختلافات کو صبر اور تحمل سے حل کرنا
مختلف المذاہب معاشروں میں اختلافات ایک فطری امر ہیں، لیکن نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ صبر، تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی تعلیم دی۔ جب آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ میں شدید مخالفت اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا، تو آپ ﷺ نے ہمیشہ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔
قرآن پاک میں بھی مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی گئی ہے:
"صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”* (سورۃ البقرۃ: 153)
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں، مسلمانوں کو اختلافات اور تنازعات کا حل صبر، تحمل اور محبت کے ساتھ نکالنا چاہیے۔ مسلمان کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی تشدد یا انتقام کی راہ اختیار نہ کرے، بلکہ ہمیشہ امن اور محبت کا پیغام عام کرے۔
خلاصہ یہ کہ سیرت نبوی ﷺ ایک مسلمان کے لیے ہر شعبۂ زندگی میں ایک کامل نمونہ ہے، چاہے وہ ذاتی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی۔ مختلف المذاہب ملک میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں رواداری، انصاف، قانون کی پاسداری، خیرخواہی اور صبر و تحمل جیسے اوصاف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مسلمان معاشرے میں امن و محبت کا سبب بن سکتے ہیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پرچار کر سکتے ہیں۔
اسلام کا پیغام امن و سلامتی کا ہے، اور سیرت نبوی ﷺ اس کا بہترین نمونہ ہے۔ مختلف المذاہب معاشروں میں مسلمان نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنا کر نہ صرف اپنے کردار کو بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ دوسروں کے لیے ایک بہترین مثال بھی قائم کر سکتے ہیں۔