Slide
Slide
Slide

کتاب”نظام اوقاف ” میری نظر میں

کتاب”نظام اوقاف ” میری نظر میں

عین الحق امینی قاسمی

اردو منزل خاتوپور بیگوسرائے

………………………………….

سردست کتاب کا پورا نام "نظام اوقاف،اہمیت، تاریخ، احکام، قانون، وقف ترمیمی بل،2024ءاور امارت شرعیہ کی جد وجہد” ہے۔
امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کے قائم مقام ناظم مولانا وحکیم محمد شبلی القاسمی صاحب نے پیہم محنت اور لانبے بھاگ دوڑ کے درمیان 198صفحات کی اس کتاب کو غیر معمولی فکر وذہن کے ساتھ ترتیب دیا ہے ، صاحب کتاب مولانا شبلی القاسمی صاحب، محنتی، فکر مند اور قومی وملی خدمات کے تئیں اپنے اندردردمند دل رکھنے والے بے باک عالم دین اور جرئت مند انسان ہیں،مختلف سطح کی گوناگوں ذمہ داریوں کے بیچ بھی وہ اپنا رشتہ قرطاس وقلم سے مضبوط رکھتے ہیں،زیر نظر کتاب اسی علمی رشتے کا مظہر ہے ۔

یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ دینی وشرعی لحاظ سے تو اوقاف کی روایت قدیم ہے ،مگر خاص کر بھارت جیسے ملک میں سیاسی وملی سطح پر مختلف ادوار میں "اوقاف” کو متعارف کرانے اور باضابطہ ایکٹ کو منظور ی دلوانے میں امارت شرعیہ کی کوششیں لائق ستائش رہی ہیں ۔
نظام اوقاف نامی اس کتاب میں مرض کی تشخیص بھی ہے ،طریقہ علاج بھی اور دوا واحتیاط بھی ہے۔کلمات تبریک کے ذیل میں حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
"بہار اڈیشہ، جھارکھنڈ اور بنگال کے مسلمانوں کے اندر زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کرنے کی غرض سے امارت شرعیہ کے زیر اہتمام ۱۵/ستمبر 2024ء کو تحفظ اوقاف کے عنوان سے ایک تاریخی کا نفرنس (باپو سبھا گار ہال نزد گاندھی میدان) پٹنہ میں منعقد ہو رہی ہے، حالات کا تقاضہ تھا کہ اس موقع پر اوقاف کی شرعی ، آئینی اور تاریخی پہلوؤں کیساتھ موجودہ بل کے نقائص ، اسکے مضمرات اور وقف کے وجود اور اس کی حیثیت پر پڑنے والے منفی اثرات پر مشتمل ایک مدلل اور جامع تحریر مرتب ہو جائے، جو ایک دستاویزی شکل میں یادگار علمی تحفے کے طور پر طالبین و شائقین تک پہونچ سکے۔(ص:7)
حضرت نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی صاحب زید مجدہ نےکتاب پر رواں قلم سےجامع تقریظ لکھی ہے: مولانانے وقف بل کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئےبتایا ہے کہ یہ بل ملک کے قانون ،اس کی دیرینہ روایت اور ثقافت پر گہرے منفی اثرات ڈالیں گے،اور ملک میں بدترین قسم کی انارکی پھیلے گی۔کتاب میں امارت شرعیہ کی جدوجہداور پیش رفت کا بھی تذکرہ کیا ہے ،جس سےوقف املاک کی اہمیت اور اس بل کے نقائص کی جانکاری کےساتھ امارت شرعیہ کے ذمہ داران ،قضاۃ اور کارکنان کے حوالے سے تحفظ اوقاف کے لئے غیر معمولی کاوشوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی”(ص:11)
مرتب کتاب قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے کتاب کے حوالے سے لکھا ہے:
زیر نظر کتاب نظام اوقاف امارت شرعیہ کی دعوتی، تبلیغی تحریکی اور ملی خدمات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، کتاب کے باب اول میں کوشش کی گئی ہے کہ قارئین اوقاف کی اہمیت ، فضیلت ، تاریخ اور شرعی احکام کو جانیں، وقف کے ملکی قوانین ، سپریم کورٹ سمیت ملک کی کئی اہم عدالتوں کے فیصلےنگاہوں میں رہیں اور بل 2024 کی خطرناکی سے واقف ہوں ، حکومت میں بیٹھے فرقہ پرست عناصر اور متعصب افسران کی ذہنیت کو دیکھیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ۔ فراست ایمانی سے کام لیں، اسی کے ساتھ باب دوم میں امارت شرعیہ کی اس سلسلہ میں کی گئی شبانہ روز کی سرگرمیوں ، حکومتی، سیاسی اور عوامی سطح پر کی جانے والی مخلصانہ خدمات سے واقف ہوں تاکہ ملی قائدین، اداروں اور تنظیموں سے وابستگی مضبوط ہو” (ص:22)

ان درج بالا اقتباسات سے کتاب اور موضوع کی اہمیت وعظمت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ،کتاب میں مولانا مفتی سہراب ندوی اور مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائبین نا ظم امارت شرعیہ کی زریں تحریریں بھی حرف چند اور پیش لفظ کے عنوان سے شامل ہیں ۔جن سے کتاب کےمشمولات پراچھی روشنی پڑتی ہے۔

کتابت و طباعت ،عمدہ ہے ،ہارڈ بائنڈنگ نہیں ہے ،کتاب کی عام قیمت صرف سو روپے رکھی گئی ،تاکہ ہرہاتھ ومیز تک یہ کتاب پہنچ سکے ۔متعلقہ موضوع اور وقف ترمیمی بل 2024 کی کنہیات اور امارت شرعیہ اور دیگر تنظیموں کی جد وجہد کو سمجھنے کے تعلق سےیقینا کتاب اس لائق ہے کہ اس کو حاصل کرپڑھنا چاہئے،جے پی سی کیا ہے ،اس کے ممبران کون اور کتنے ہیں ؟ترمیم کے نام پرکہاں کہاں حکومت نےڈنڈی ماری ہے ، وقف ترمیمی بل 2024/ کے مضمرات اور مشکلات کو عام زبان میں تفصیل سے سمجھانے کی ایسی کامیاب کوشش کی ہے جس سے صاف جھلکتا ہے کہ حکومت ترمیم کی راہ سے وقف کو سرے سے تبدیل ہی کرنا چاہتی ہے۔

امارت شرعیہ کے شعبہ نشر واشاعت سے کتاب شائع ہوکر منظر عام پر آئی ہے جس کا خوبصورت اجراء امارت شرعیہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والےتاریخی اجلاس تحفظ مدارس کنونشن کے موقع پرحضرت امیر ونائب امیر شریعت کےہاتھوں عمل میں آیا۔امارت شرعیہ کے علاوہ ملک کے دیگر دارالقضاؤں سے بھی یہ کتاب بہ آسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: