جو جائیدادیں وقف بورڈ میں پہلے سے رجسٹرڈ ہیں ان کو ہی امید پورٹل پر احتجاجی نوٹ کےساتھ اپلوڈ کریں
(پھلواری شریف ۲۵؍نومبر ۲۰۲۵)
اوقاف کی جائدادیں اللّٰہ کی ایک امانت ہیں، ان کی حفاظت کے لئے ہم سبھی لوگ اللّٰہ کی غیبی نصرت وحمایت اور اس کے احکام کی پیروی کے ساتھ اجتماعی قوت سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہرحال میں منشاء واقف کے مطابق اس کے مصارف کوعمل میں لائیں، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ،جھارکھنڈ و مغربی بنگال کے امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مدظلہ نے بہار کے متولیان اوقاف کے ایک مشاورتی اجلاس منعقدہ ۲۵؍نومبر ۲۰۲۵ء المعہدالعالی للتدریب فی القضاء والافتاء کے کانفرنس ہال میں کیا،جس میں ریاست بہار کے متولیان مساجد و مدارس،قبرستان کے صدور و سکریٹریز نے پانچ سو سےزائد تعداد میں شرکت کی، اس مجمع سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت مدظلہ نے فرمایاکہ وقف کا نیا قانون(وقف ترمیمی ایکٹ 2025) دستور ہند کے بنیادی دفعات ،انسانی حقوق اور سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کے خلاف ہے، اس سے وقف کی جائدادیں محفوظ نہیں رہیں گی، اس لئے اس قانون کی واپسی تک ہماری تحریک جاری رہے گی، حضرت امیر شریعت نے اپنے ایک گھنٹہ کے خطاب میں وقف کی شرعی حیثیت اور موجودہ ایکٹ کے نقائص پر نہایت ہی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ 1850ء سے قبل اوقافی جائدادیں محفوظ تھیں، انگریزوں کے عہد میں 1923ء میں ایک قانون بنا جس کو قانون سازوں نے چیریٹی کے دائرہ سے نکال دیا تاکہ زرعی ٹیکس اور مال گذاری کی حصولیابی آسان ہو، حالانکہ یہ کوئی چیریٹی پروپرٹی نہیں ہے، بلکہ وقف عبادت ہے، جب مرکزی حکومت نے نیاقانون وضع کیا تو انگریزوں کے نقطہائے نظر کو پیش نظر رکھا، حالانکہ یہ تصور سراسر شرعی و ملکی قانون کے خلاف ہے، اس کی اصلاح و درستگی کےسلسلہ میں مرحلہ وار تبدیلی ہوتی رہی، تاآنکہ 1995ء میں وقف ایکٹ پاس ہوا جس میں بڑی حد تک واقف کے منشاء کا خیال رکھا گیا اور زبانی وقف کرنے کو بھی وقف سمجھا گیا، اس کے لئے رجسٹریشن کو لازمی نہیں قرار دیا، اب جب کہ نیا قانون نافذ ہونے والاہے، اس میں اوقاف کو رجسٹرڈ کرانے کو لازمی قرار دیا گیا ہے، اس نئے قانون نے ملت کو ذہنی الجھن میں ڈال دیاہے کہ وہ شرعی عزیمت کی راہ اختیار کرے یا قانونی رخصت کے طریقہ کار کو اپنائے، اگر عزیمت پر عمل کیاجاتا ہے تو قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنی ہونگی اور اس کے لئے ہم سب کو تیار رہنا ہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اگرچہ ہم سب اس سیاہ قانون کو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں سمجھتے ؛تاہم حکومت کی طرف سے جاری ہدایت کے پس منظر میں اگر کوئی متولی عزیمت کی راہ اختیار کرے تو وہ کورٹ کی راہ اختیار کرے اور اگر رخصت کی راہ اختیار کرتا ہے تو جائداد جو وقف بورڈ میں پہلے سے رجسٹرڈ ہیں انہیں امید پورٹل پر اپلوڈ کرائیں؛لیکن اس کے ساتھ امارت شرعیہ کی طرف سے جو احتجاجی نوٹ فراہم کرایا جا رہا ہے ،اسے بھی اپلوڈ کرے ؛تاکہ عدم رضا کے اظہار کے ساتھ اللّٰہ کے سامنے کسی قدر جوابدہی سے بچ سکیں ،ان کے علاوہ جو وقف کی جائداد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں ،انہیں سپریم کورٹ کے مکمل فیصلہ آنے سے پہلے رجسٹرڈ کرانے کی ضرورت نہیں ہے ،نیز جو مدارس، مساجد، عیدگاہ، قبرستان خرید یا گفٹ کی زمین پر واقع ہیں یا ان کے کاغذات دستیاب نہیں ہیں صرف کھتیان ہیں ان کا ذکر ہے ،ایسی جائداد کو بھی رجسٹرڈ نہیں کرانا ہے ،ان شاء اللہ امارت شرعیہ اس سلسلہ میں آئندہ غوروخوض کے بعد مزید رہنمائی کرے گی،جوحضرات رجسٹرڈ شدہ جائداد کو امید پورٹل پر ڈالنا چاہتے ہوں اور انہیں دشواری در پیش ہو تو وہ امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر میں قائم *شعبۂ خدمت* سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ازیں قبل ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ، جھارکھنڈ و صدر مفتی محمد سعید الرحمٰن قاسمی نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں مندوبین کا شکریہ ادا کیا اور اوقاف کی اہمیت وافادیت اور احکام ومسائل کے ذکر کے ساتھ اوقاف کی گرانقدر تاریخ، ہندوستان کے مختلف ادوار میں اس کے حکومتی قوانین کی خطرناکیوں کو بیان کیا اور اس تعلق سے اکابر امارت شرعیہ کی طرف سے کی جانے والی کاوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اول دن سے موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی بل سے لے کر قانون بننے تک بڑی جدوجہد کرتے رہے، جس کی ایک لمبی تاریخ ہے کہ اس کے قانون کے خلاف سیکڑوں اجتماعات منعقد کئے، ملت کو وقف کی حفاظت کے لئے بیدار کیا، بدقسمتی ایسی کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ نے بھی سبھوں کو مایوس کیا اورجن نکات پر رولنگ دی وہ بھی اطمینان بخش نہیں ہے، ان حالات میں ہم سب کو اجتماعی قوت کے ساتھ مسئلہ کو حل کرنا ہے اور آخری لمحہ تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھنی ہے اور جس طرح آج آپ امارت شرعیہ کی دعوت پر یہاں جمع ہوئے ہیں آئندہ بھی امارت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں تشریف لائیں اور یقین مانیں جو تحریک اجتماعی قوت سے چلتی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے، امارت شرعیہ کے نائب ناظم مولانا مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی نے وضاحت کی کہ جب آپ رجسٹریشن کے لئے اپلوڈ کریں تو رجسٹریشن کے ہدایت نامہ پر احتجاجی نوٹ کا اضافہ کردیں کہ یہ قانون دستور کے مطابق نہیں ہے،انہوں نے اس سلسلہ میں ایک تجویز بھی پیش کی جس کو شرکاء نے منظور کیا، تجویز کا خلاصہ یہ ہے۔
*وقف ایکٹ 2025 غیر شرعی اور غیر دستوری ہے، یہ اوقاف پر کھلاحملہ اور اس کو تباہ کرنے کا آلہ کار ہے، اس لئے یہ اجلاس اس ایکٹ کو مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیتا ہے،اور اس عہد کا اظہار کرتا ہے کہ ایکٹ کی واپسی تک قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حضرت امیر شریعت کی قیادت میں پُر امن مضبوط احتجاجی تحریک جاری رکھے گا ۔
اوقاف کی ایسی جائیدادیں جو پہلے سے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں ان کو احتجاجی نوٹ کے ساتھ امید پورٹل پر اپلوڈ کریں،(احتجاجی نوٹ کی کاپی امارت شرعیہ سے رابطہ کر کے حاصل کی جاسکتی ہے۔)
جو جائیدادیں پہلے سے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں، ان کو امید پورٹل پر اپلوڈ نہ کیا جائے اس سلسلے میں امارت شرعیہ کی جانب سے آئندہ جو ہدایات دی جائیں گی ان کے مطابق عمل کیا جائے، البتہ ان جائیداوں کے تمام دستاویزات کو درست کر کے محفوظ رکھاجائے۔
یہ اجلاس حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم امیر شریعت بہار اڈیشہ ،جھارکھنڈ و مغربی بنگال کی صدارت میں منعقد ہوا،اجلاس کا آغاز مولانامولانا محمد اسعداللّٰہ قاسمی ،مینیجر نقیب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ، بعدازاں مولانا مجیب الرحمٰن قاسمی صاحب معاون قاضی شریعت امارت شرعیہ اور مولانا احمد حسین قاسمی مدنی معاون ناظم امارت شرعیہ نے رسالت مآبﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، اجلاس کی نظامت کا فریضہ مولانا مفتی محمد سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا، شرکاء نے رجسٹریشن کے تعلق سے کئی خدشات اور اندیشوں کا اظہار کیا جس کا حضرت امیر شریعت نے بہت عمدہ طریقہ سے قانونی انداز میں جواب مرحمت فرمایا جس سے لوگوں کو اطمینان خاطر ہوا، اخیر میں یہ اجلاس حضرت امیر شریعت کی رقت آمیز دعاء پر اختتام پذیر ہوا۔