Slide
Slide
Slide
sailerawan.com

"اندھیری رات کےواعظ ” مولانا سید طاہر حسین گیاوی رح

عین الحق امینی قاسمی، معہد عائشہ الصدیقہ،بیگوسرائے

یاد پڑتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں آج سے کوئی 27/ برس قبل،پہلی مرتبہ ان کا نام سنا تھا ،بات مناظرے اور مناظر اسلام کی چلی، تو بعض ساتھیوں نے مولانا کا تعارف نہ صرف  عقیدت مندانہ لہجے میں کرایا ،بلکہ ان کی فتح یابی کے دوچند کراماتی  واقعات بھی سنائے۔یہ سب جان کر اور بھی اشتیاق دوبالا ہوا کہ وہ ماضی میں اسی دارالعلوم دیوبند کے خوشہ چیں رہ چکے ہیں ۔دارالعلوم دیوبند سے جب بھی وطن بیگوسرائے واپسی ہوتی تو مولانا گیاوی کے پروگرام کے تعلق سے مشتاق رہتا ،ان کو سننے کی بڑی آرزو تھی ،حسن اتفاق ہمارے قریب ہی شہر سے مشرق کی طرف کوئی بارہ کیلو میٹر کے فاصلے پر  بلیابازار میں منعقد ہونے والے ایک دینی جلسے کا اعلان ہورہا تھا، جس میں مناظر اسلام سلطان المناظرحضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی رحمہ اللہ کے نام کا اعلان بھی ہوا ،شدت سے اس تاریخ کا انتظار ہونے لگا ،جلد ہی وہ وقت بھی آیا جب میں نے انہیں پہلی مرتبہ قریب سے بے تابانہ سناتھا ،قریبا چھبیس برس پہلے کی ان کی وہ تقریر آج بھی دینی حمیت ،خالص دینداری ،بے ریا عمل اور حنفیت کے ساتھ شریعت محمدی کی کامل پیروی کے حوالے سے کچوکے لگاتی ہے ،عمل پر ابھارتی ہے اور دین حنیف کی تبلیغ واشاعت کے لئے دم آخر تک لہو لہو ہوتے رہنے کا جذبہ صادق پیدا کرتی ہے ،ان کی وہ کرخت دار آواز آج بھی کانوں میں ایسی سمائی ہوئی ہے کہ مانو وہ سراپا احتجاج ہیں ، آخری رسول کی آخری شریعت  یا اللہ کے دین کے چھوٹے سے چھوٹے حکم میں ملاوٹ یا بے جاتاویل پر وہ تلملا اٹھتے تھے اور سراپا احتجاج بن کر وہ گرجتے اور ایسے برستے تھے جیسے ان کاکچھ ذاتی نقصان ہوگیا ہو ،وہ دین حق کو اور نبی اکرم محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شریعت کو بلا چوں وچرا پورے سولہ آنہ برتنے کے روادار تھے ۔اس میں قیل و قال اور ملاوٹ کو خیانت اور جرم سمجھتے تھے۔

پوچھتی پھرتی ہے ہر ایک سے یہ شمع محفل———– کون تھا  نغمہ سرا، د ر د بھر ے  لہجے میں

چند برسوں بعد جب میری دارالعلوم دیوبند سے رسمی فراغت ہوئئ اور یہ عاجز مرکزی مسجد کچہری شہر بیگوسرائے کا امام منتخب ہوا تو اسی زمانے میں پپرور جو قلب شہر بیگوسرائے سے جانب مغرب دس کیلو میٹر کی مسافت پر سادات کی بستی ہے ،اہل بستی نے مولانا سید ابو اختر قاسمی کی صدارت میں ایک جلسہ رکھا تھا جس میں مناظر اسلام علامہ گیاوی کا کلیدی خطاب ہونا طے تھا اوراس اجلاس کی خوبی یہ تھی کہ وہ جلسہ  خطباء وواعظین کی لانبی فہرست سے محفوظ تھا ،جلسے کی کل کائنات صرف علامہ گیاوی تھے ۔خوب خیالی میں بستی کے اہل علم نے میرے جیسے کچی عمرکے نوجوان کو ناظم جلسہ بنایا ہوا تھا ،ایک طرف اجلاس کی عظمت دوسری طرف مولانا کے جلال کی ہیبت ،گویم نگویم کے درمیان کشمکش کی بھٹی میں انتہائی پریشان ۔مگر حوصلوں کو جٹا کر دمدار انداز میں پہلی مرتبہ جب اس عاجز نے خطابت کے لئے مولانا گیاوی کے نام کا اعلان کیا کہ "کلیجہ تھام کر بیٹھو ،اب میری باری ہے "تو مولانا مسکرائے اور جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی کرسئ خطابت پر تشریف لے آئے، اپنے رومال کو دامن پر پھیلا اور حمد وصلاۃ کے بعد جو شروع ہوئے تو تقریبا سوا دوگھنٹہ اپنے مخصوص لہجے میں جلال وجمال کے گرد مدلل گفتگو فرمائی  ۔

          ہم  ا جا لو  ں  کے  پیغا  مبر  ہیں ——           ر و شنی  کی حما یت  کر یں گے——           جو  دئیے خدا نے ر وشن کئے ہیں ——           ان  د یو ں کی حفا ظت کریں گے 

مجمع بہت زیادہ نہیں تھا ،در اصل اہل بستی نے ایک خاص پس منظر میں مولانا کے پروگرام کی منظور ی لی تھی ،نفس مسئلہ یہ تھا کہ ایک صاحب پلمبر کے ویزے پر سعودی عرب گئے ہوئے تھے ،وہا ں کے قیام کے بعد جب واپسی ہوئی تو مسجد ،مدرسہ ،چائے خانہ یا جس جگہ بھی دوچند افراد موجود ہوتے پلمبر صاحب  باتوں بات میں بخاری اور مسلم کی بحث چھیڑ دیتے ،نتیجتا گاؤں پھوٹنے کے کگار پہ آگیا ،پریشان ہوکر  دوچند شعور مند احباب نے باہمی مشورے کے بعد مولانا سے رابطہ کر ان کے پروگرام کویقینی بنایا ،جلسہ بعد نماز عشاء سادگی کے ساتھ شروع ہوا اور کوئی سوا بارہ بجے بحسن وخوبی اپنے اختتام کو پہنچا ۔علامہ گیاوی نے اپنے اس بیان میں تقلید کی شرعی حیثیت ،حدیث شریف کی حجیت،اس کی ضرورت ،فقہا کرام کی عظمت واہمیت ،امام بخاری ومسلم رحمھم اللہ کی مقبولیت وغیرہ پر علمی گفتگو فرمائی ،وہیں عصر حاضر کے نوجوانوں کی شرارتوں ،بخاری ومسلم کی آڑ میں سماج کو توڑ نے والے پلمبر وفیٹر مزدور وں کی زبر دست دھلائی کرتے ہوئے فرمایا : "کہ کیا عرب میں گدھے نہیں رہتے ہیں. یہاں سے پائپ فیٹر بن کر عرب جانے والے اور مجتہد بن کر لوٹنے والے بھی حماقت بکھیرنے کے معاملے میں گدھے سے کم  ہیں۔

"مولانا گیا وی کی طلاقت لسانی ،ان کی ذہانت اورلہجوں کی ملاحت نے بستی میں  پنپنے والے ناسور کامانو  گلا ہی ریت دیا ،اگلی صبح سے  بخاری ومسلم کی رٹ لگانے والوں کوجیسے سانپ سونگھ گیا ہو ،مسئلہ ہی ختم ہوگیا ،مولانا کی ایک تقریر نے تخریب کاروں کے عزائم پہ پانی پھیر دیا اور علاقہ بھر کےپلمبر ،فیٹر اور بلڈروں کی حجیت کو تارتار کردیا ۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے ——کہتے ہیں کہ غا لب کا  ہے اند ا ز بیاں اور

 

دن تاریخ تو یاد نہیں ،مگر ایک دوسرے جلسے میں بھی مولانا کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق اسی بستی میں ہوا ،ناظم جلسہ کی حیثیت سے دیگر مقررین کے بعد اس عاجز نے مولانا کے نام کا اعلان کیا ،یہ جلسہ مسجد سے دکھن جانب ایک بڑے میدان میں رکھا گیا تھا ،جہاں بڑا مجمع تھا ،مولانا کی گفتگو سے قبل بجلی بتی مائک اور انتظامات بہت بہتر تھے ،مگر جب حضرت گیاوی کا بیان شروع ہوا تو محض پندرہ منٹ کے بعد جنریٹر کا ایسا نظام بگڑا کہ مولانا کا پورا وعظ اسی اندھیری رات میں بے مائک تسلسل کے ساتھ ہوتا رہ گیا ،ہزار جتن کے بعد اس کا نظام تب سنبھلا جب مولانا کی گفتگو آخری مرحلے میں داخل ہوچکی تھی ،مگر تصور کے خلاف مولانا نے ایک بار بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ،بلکہ انہوں نے مسلسل اپنی گفتگو جاری رکھی ،لوگ سمٹ کر قریب آگئے، اسٹیج کے دائیں بائیں لگ کر بصیرت و بصارت کے کا ن سےپورا وعظ سماعت کرتے رہے ،حسب روایت اس اجلاس میں مولانا نے کسی پر نقد کے بغیر پوری تقریر اصلاح حال پر کی ، ایمانی واحسانی زندگی کے روحانی فوائد اورذاتی اصلاح کی ضرورت واہمیت اور خاندان وسماج پر اس کے مثبت اثرات جیسی پرکشش باتیں کیں ،عجب بات ہے کہ مولانا کی یہ پوری تقریر ظاہری اور اجتماعی مراقبے کی حالت میں ہوئی جو لوگ قریب تھے اور خطاب  سماعت کررہے تھے ،وہ کافی خوش تھے ،گویا جیسےکسی خزانے کا سراغ مل گیا ہو ۔اسی وقت ایک صاحب دل نے فرمایا تھا کہ یہ اندھیری رات کے واعظ ٹھہرے۔

مولانا گیا وی کو  لوگ عام طورپر صرف ایک زاوئیے سے جانتے ہیں یا جاننے کی کوشش کرتے ہیں ،جب کہ سچائی یہ ہے کہ وہ جس طرح علمی دنیا کے راہب تھے ،روحانی دنیا کے شہسوار بھی تھے ،انہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کے رخ کو اپنا یا ،خدمتوں کے میدان میں درس وتدریس اور اداروں کی نگرانی وسرپرستی کے سوا دعوت وتبلیغ کو مشن کے طور پر انجام دیا ،اس درمیان اپنی وضع قطع یا گفتگو کے پیچ و خم میں راہ مستقیم سے ایک اینچ بھی سر مو انحراف کو گوارہ نہیں کیا ،سادگی ان کا امتیاز تھا ،بزرگوں والی دوپلی ٹوپی ان کی شان وپہچان تھی ،دلوں کو فتح کرنے کے لئے کبھی انہوں نے  عبا ،قبا کا سہارا نہیں لیا اور نہ  اپنے اکابرین کی طرح دیگر زاویوں کے پیرہن زیب تن  کیا ،سادے لباس میں اپنی بات ایسی مضبوطی سے رکھتے کہ زیغ وضلال کو راہ مفر کے سوا کوئی راہ نہ ملتی تھی۔

یہ طر زخاص ہے ،کوئ کہاں سے لائے گا ——-جو ہم کہیں گے،کسی سے کہا نہ جائے گا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: