جدید صنعت و تجارت کے اصول اور مسلمان
محمد عمر فراہی
ٹھاکر صاحب جب بارہ سال کے تھے تو ان کا خاندان لاہور پاکستان سے ہجرت کر کے ممبئی منتقل ہو گیا ۔انہوں نے ممبئی کے وی جے ٹی آئی گورنمنٹ انجینیرنگ کالج سے میکینکل انجینیرنگ میں گریجویشن کر کے لارسن اینڈ ٹو برو میں ملازمت اختیار کر لی ۔تھوڑے دن نوکری کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے لیکن وقت سے پہلے ہی یہ ملازمت بھی چھوڑ کر ممبئی میں پلاسٹک انڈسٹری کے کاروبار میں چلے آئے۔کچھ دنوں تک تو ممبئی میں ہی رہے، بعد میں موسم اور آب وہوا کی وجہ سے ہماچل پردیش کے شہر سولن میں جہاں ان کے والد نے بٹوارے سے پہلے ہی تین گنٹھا زمیں خرید لی تھی اپنی کمپنی کو وہاں منتقل کر لیا اور ابھی تین سال ہوا وہ انتقال کر گئے ۔
ٹھاکر صاحب چونکہ لاہور کے ٹھاکر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے اسی نام سے مشہور تھے ۔وہ دولت جائیداد عمر تجربے اور ہر معاملے میں مجھ سے بہت بڑے تھے پھر بھی وہ جب کاروباری معاملات میں رابطے میں آۓ تو انہیں کیا چیز میری پسند آئی کہ وہ نہ صرف مجھے عزت دیتے تھے کبھی کبھی فون کرکے بہت سے معاملات میں مشورہ مانگنے میں بھی جھجھک نہیں محسوس کرتے ۔میں بھی ان کے تجربے اور مشاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بٹوارے سے پیدا ہونے والے حالات پر کھل کر بات کرتا رہتا تھا ۔میں نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھا ہے کہ کیسے غیر مسلم سرمایہ داروں نے بینکوں کی مدد سے بھارت چھوڑتے ہوۓ انگریزوں سے نہ صرف ان کی ساری فیکٹریاں خرید لیں وہ بازار جس پر کبھی مسلمانوں کی اجارہ داری تھی اس پر بھی قابض ہو گئے ۔ مسلمان علی گڑھ مرادآباد اور مئو مبارک پور میں اپنے روایتی طور طریقوں سے چل رہی اپنی صنعت و تجارت سے خوش ہوتا رہا جبکہ بیسویں صدی کی دنیا میں تیزی کے ساتھ ایک نیا انقلاب آرہا تھا ۔غیر مسلم سرمایہ دار انگریزوں کی چھوڑی ہوئی مشینوں اور ٹکنالوجی سے کارپوریٹ جگت کا مالک بن گیا ۔اسی مضمون میں میں نے یہ بھی لکھا ہے کی ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ صرف جدید تعلیم سے دور ہونا ہی نہیں تھا بلکہ اچانک آنے والے لبرل طرز سیاست کے داؤ پیچ سے ناواقفیت اور اس کو قبول کر لینا اور پھر اس نظام کے ماتحت بینک اور سودی نظام کے تعلق سے حرام و حلال کی بحث میں مبتلا ہو کر بہت سی نئی تجارتوں سے محروم ہو جانا بھی اس کی پسماندگی کا ایک بہت بڑا سبب بنا ۔مسلمان نہ صرف ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہ ہو پایا اقتدار سے محروم ہونے کی وجہ سے مسلم سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا اپنی عوام پر سے دبدبہ بھی ختم ہوگیا اور پھر مسلسل ہونے والے فسادات اور اقتدار کی طرف بڑھتے ہوۓ فاشزم کے قدم اور مسلم رہنماؤں کی بے بسی اور مسلکی انتشار نے اسے اور بھی کئی طرح کے بحران میں مبتلا کردیا ۔
یعنی مستقبل کے مسلمان مورخ کے لئے یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوگا کہ تحریک آزادی ہند کے بعد مسلمانوں نے خود کتنا نقصان پہنچایا اور دوسروں سے کتنا نقصان پہنچایا اور اس کی پسماندگی کی اصل وجہ کیا ہے ؟
اس کے برعکس بھارت میں چونکہ ہندو سیاسی طور پر غالب آ چکا تھا ان کا اصل مسئلہ روزی اور روزگار رہا ہے اور انہوں نے اس میدان میں بغیر حلال و حرام کی تمیز کئے ہر وہ راستہ اختیار کیا جو اس کی سیاسی اور معاشی ترقی کیلئے درکار تھا ۔
اسی تعلق سے ٹھاکر صاحب نے پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے سندھیوں کا ایک قصہ بتایا کہ ان لوگوں نے اپنی تاجرانہ مہارت سے کس طرح بہت جلد بازار پر اپنا دبدبہ بنا لیا ۔وہ کہتے ہیں میرے والد کے جاننے والا ایک ایک سندھی تھا وہ جب ممبئی آیا تو اسے بھی کاروبار کی تلاش تھی ۔وہ بازار میں اپنے اسی کاروبار کے تعلق سے گھومتا رہا کی کیا کیا جائے ۔ایک دن وہ ٹہل رہا تھا تو اس کی نظر بازار کے نکڑ پر ایک مسلمان کی دوا کی دکان پر پڑی ۔اس کے دماغ میں ایک منصوبہ آیا کہ نئے سرے سے کوئی کاروبار شروع کرنے اور نقصان اٹھانے سے بہتر ہے کیوں نہ کسی چلتے ہوۓ کاروبار کو تھوڑا زیادہ رقم دے کر خرید لیا جائے۔ وہ بازار کے نکڑ پر موجود دکان کے مالک سے ملا اور اس سے کہتا ہے کہ سنا ہے آپ دکان بیچ رہے ہیں ۔مالک نے کہا کہ آپ پاگل ہو گئے ہیں کیا ۔میں کیوں اس دکان کو بیچوں گا ۔سندھی نے کہا نہیں میں نے سنا ہے کہ آپ کچھ تین ہزار میں بیچنا چاہتے ہیں اگر ایسا کچھ ارادہ ہو تو مجھے بتانا اور وہ اپنا پتہ دے کر چلا آیا ۔دکان مالک بھی سوچنے لگا کہ عجیب آدمی ہے ۔دکان کی قیمت تو ڈھائی ہزار ہی ہے اور وہ تین ہزار قیمت لگا کر چلا گیا لیکن میں پھر بھی کیوں بیچوں ۔کچھ مہینے بعد اس نے اسی دکان پر ایک دلال کو بھیجا اور اس سے کہلوایا کہ اس میڈیکل اسٹور کا چار ہزار دام لگا دو ۔دلال نے دکان مالک سے کہا کہ اگر اپنی دکان بیچنا چاہو تو میرے پاس چار ہزار کا گراہک ہے ۔دوکان مالک کو اپنی دوکان بیچنا تو نہیں تھا لیکن منافع دیکھ کر اس کے منھ میں پانی آنے لگا ۔اس نے کہا بچوں سے پوچھ کر بتاتا ہوں ۔بچوں نے کہا ویسے ایک دن تو بھائیوں میں بٹوارہ ہونا ہی کیوں نہ اس کو پانچ ہزار بولتے ہیں ۔اگر وہ پانچ ہزار میں دوکان خرید لیتا ہے تو ہم دونوں بھائی اتنے میں دو دکان خرید سکتے ہیں ۔مالک نے پانچ ہزار قیمت لگا دی اور سندھی نے اسے خرید لیا ۔اس کے باوجود سندھی منافع میں رہا کیوں کہ اسے دکان خریدنے کے دن سے ہی فائدہ ہونا تھا جب کہ یہی بات مسلمان مالک نے نہیں سوچا کہ دوسری جگہ وہ اس پیسے میں دو دکان تو ضرور خرید لے گا لیکن کاروبار جمانے میں سالوں کا وقفہ جا سکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ کاروبار کامیاب بھی ہو ۔اس طرح زیادہ پیسوں کی لالچ میں سندھیوں اور مارواڑیوں نے نہ صرف کم وقت میں کاروبار شروع کر لیا دھیرے دھیرے بازار پر بھی قابض ہو گئے اور مسلمان جدید صنعت و تجارت کے ساتھ ہول سیل بازار سے بھی باہر ہو گئے ۔