تحریر: محی الدین غازی
مولانا فاروق صاحب کی مجلس میں حاضری دینے اور آپ کے افادات سے خوشہ چینی کرنے کا موقع ملتا رہا۔ راقم کا مشاہدہ ہے کہ مولانا کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی ہر آن تازہ دم جمالیاتی حس تھی۔
مولانا کی جمالیاتی حس نے ان کے ذوق کو تنوع پسند بنایا تھا۔ مولانا کی علمی دلچسپیاں نوع بہ نوع تھیں۔ عہد حاضر کے اسلامی مصنفین میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس کے علمی مشاغل میں اس قدر تنوع پایا جاتا ہو۔ خاص بات یہ ہے کہ مولانا نے علم کی جس صنف میں قلم اٹھایا اپنے جمالیاتی مشاہدے کو خاص طور سے رقم فرمایا۔
مولانا کی جمالیاتی حس نے انھیں قرآن کا شیدائی بنایا، یا قرآن مجید کے جمالیاتی کمال نے مولانا کی جمالیاتی حس کی پرورش کی؟ شاید دونوں باتیں درست ہیں۔ مولانا قرآن مجید کے حسن و جمال کا مشاہدہ کرتے ہوئے آخر کار ایمائے قرآن سے روبرو ہوئے۔ مولانا کے لیے یہ بے حد خوش گوار انکشاف تھا۔ مولانا اس حوالے سے پورے قرآن مجید پر کام کرنا چاہتے تھے، لیکن ایک کتابچہ ہی تیار ہوسکا۔
احادیث رسول ﷺ کا مطالعہ انھوں نے فقہی نقطہ نظر سے نہیں کیا، جیسا کہ عام شارحین کا معمول رہاہے، بلکہ احادیث سے انوکھے نکات حاصل کرنے کی سعی جمیل کی۔ کلام نبوت سے موسوم مولانا کی تصنیف اس خصوصیت میں ممتاز نظر آتی ہے۔
مولانا مرحوم نے قدیم ہندوستانی کتابوں کا مطالعہ خوب کیا اور اس دوران بھی اپنی جمالیاتی حس کو حاضر رکھا، اس کے نتیجے میں ان کے دامن میں بہت سے انمول انوکھے ہندوستانی نکتے جمع ہوگئے۔ مولانا کی گہر بار گفتگو میں ان کا ذکر بھی خوب ہوتا۔
مولانا فاروق خاں صاحب کی جمالیاتی حس اور ندرت پسندی انھیں علامہ فراہی کے یہاں لے گئی۔ علامہ فراہی کے بہت سے وہ نکات جن کا خود مکتب فراہی میں ذکر نہیں سنا جاتا، مولانا فاروق صاحب کے یہاں ان کا اہتمام سے ورد ہوتا تھا۔جیسے دین نام ہے سیر باطن کا۔ نظم قرآن سے مولانا کی گہری دلچسپی میں ان کی جمالیاتی حس اور ندرت پسندی کا کردار ضرور ہوگا۔
مولانا نے نظم قرآن کے جمالیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی حسین کوشش کی، اس پہلو سے نظم قرآن کے باب میں مولانا کا حصہ قابلِ قدر ہے۔
مولانا فاروق خاں کی جمالیاتی حس نے انھیں سید قطب کا ہم مشرب بنایا۔ سید قطب نے قرآنی اعجاز کے نئے پہلو دریافت کیے جیسے قرآن کا تصویری اعجاز اور صوتی اعجاز۔ مولانا فاروق خاں نے ان پہلوؤں سے اردو داں طبقے کا تعارف کرایا۔
مولانا فاروق خاں صاحب کی جمالیاتی حس نےانھیں معقولیت پسندی سے نوازا تھا، مولانا کو عقلی اشکالات گوارا نہیں تھے، ان کی کوشش یہ ہوتی کہ ایسا موقف اختیار کریں جس میں کوئی عقلی اشکال نہ رہے اور جو عقل کو مطمئن کرتا ہو۔کسی موقف کی کم زوری کو واضح کرنے کے لیے وہ لطیفوں کا سہارا بھی لیتے تھے۔ ایک لطیفہ بسا اوقات طویل وضاحت کا بدل ہوجاتا اور زیر ہدف موقف کی کم زوری کھل کر سامنے آجاتی۔ مولانا فاروق صاحب قرآن مجید کے ترجمے سے خاص شغف رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ ایسا ترجمہ تیار ہو جو ہر قسم کے اشکال سے پاک ہو۔ اس حوالے سے وہ تادمِ واپسیں کوشش کرتے رہے۔
اس جمالیاتی حس کا ایک حسین مظہر ان کی جدت و ندرت پسندی تھی۔ صرف جدید کو ان کے یہاں پذیرائی نہیں ملتی تھی، ضروری تھا کہ جدید جمیل بھی ہو اور نادر بھی۔ ان کے پاس نئے اور نادر نکتوں کی خوب قدر افزائی ہوتی تھی۔ کسی بھی موضوع پر کوئی نادر رائے رکھنے والی کتاب یا مضمون کا ان کی لائیبریری میں ہونا تعجب خیز نہیں ہوتا۔ نیا نقطہ نظر پیش کرنے والی کتابوں کو بھی یہ معلوم تھا کہ ان کی قدر کہاں ہوگی، وہ کسی نہ کسی طرح مولانا کے حجرے تک پہنچ ہی جاتیں۔ مولانا کے یہاں حاضری دینے والوں کی ضیافت فرحت بخش چائے کے ساتھ نئے اور انوکھےنکات فکر اور نقطہ ہائے نظر سے بھی ہوتی تھی۔ اگر کسی شخص کی رسائی کسی انوکھے خیال تک ہوتی تو وہ بلا جھجھک مولانا کی مجلس میں اسے پیش کرسکتا تھا، یہ وہ بہترین تحفہ تھا جو کوئی مولانا کی خدمت میں پیش کرسکتا تھا۔ اس پہلو سے مولانا فاروق خاں صاحب نے اپنے عہد پر خوش گوار اثر ڈالا۔
گذشتہ نصف صدی میں ہندوستان کی اسلامی تحریک پر دو شخصیات کا زیادہ اثر رہا۔ ایک مولانا جلال الدین عمری اور دوسرے مولانا فاروق خاں صاحب۔ دونوں کے علمی مزاج میں ایک بڑا فرق یہ بھی تھا۔ مولانا عمری کے یہاں علم کا روایتی دسترخوان چنا ہوتا تھا۔ وہ دسترخوان بھی انواع واقسام سے بھرپور ہوتا، اسلامی روایت کے بہت قیمتی شہ پارے وہاں مل جاتے، لیکن ان کے یہاں نئے اور نادر کی بالکل پذیرائی نہیں ہوتی تھی، وہ شاذ رائے سے بیزاری کا کھلا اظہار کرتے تھے۔ دوسری طرف مولانا فاروق خاں کے یہاں علم کا دسترخوان بے شمار اور متنوع قسم کے نئے اور نادر نقطہ ہائے نظرسے سجا ہوتا۔ بہت سی باتیں اول الذکر کے یہا ں شاذ کہہ کر مسترد کردی جاتیں اور موخر الذکر کے یہاں نادر ہوکر عزت پاتیں۔
ان دو شخصیات اور دودبستان علم کی بیک وقت موجودگی سے تحریک اسلامی کو بہت فائدہ ہوا۔ مقبول عام رائے کا احترام اور دیگر غیر مقبول رایوں کی قدر، ان دونوں ہی قدروں کو تحریک اسلامی میں پھولنے پھلنے کا موقع ملا۔
مولانا کی تحریروں میں وہ سب کچھ نہیں ہے جو مولانا کی مجلسوں میں ملا کرتا تھا۔ تحریر میں وہ بڑی حد تک افادہ عام کو پیش نظر رکھتے جب کہ مجلسوں میں خاص باتیں کہتے۔ وہ خاص باتیں نئی نسل کی ذہنی تشکیل میں بڑا اہم رول ادا کرتی رہیں۔
مولانا فاروق خاں صاحب نے اپنی ساری عمر اللہ کی کتاب اور اللہ کی کائنات کے حسن کا مشاہدہ کرتے اور بیان کرتے گزاری، انھوں نے اپنے حسنِ تخیل سے آخرت کے حسن کا مشاہدہ بھی کیا اور اسے بھی خوب بیان کیا۔ ان کی شاعری کی جمالیات کا راز بھی ان کا یہی مشاہدہ ہے اور نثر کا جمال بھی اسی سے ہے۔اللہ تعالی مولانا مرحوم کو اس حسین جنت میں داخل کرے جس کے ذکرِ جمیل سے وہ سامعین کو کیف و مستی سے سرشار کردیتے تھے۔