خود اعتمادی ، قیادت اور ایٹی ٹیوڈ
محمد عمرفراہی
ایک شخص جب لوگوں سے مسلسل دھوکہ کھاتا رہے اور لوگ اسے تنہا چھوڑ دیں تو وہ تنہا جینا سیکھ لیتا ہے ۔جب وہ کسی سہارے یا دوست احباب اور رشتہ داروں کی مدد کے بغیر اپنی ضرورت کو پوری کرنے کی جدوجہد کرنا شروع دیتا ہے تو یہ تنہائی اسے بہادر بنا دیتی ہے ۔اب اس کے پاس خود کو مضبوط رکھنے کیلئے جو چیز بچتی ہے وہ صرف اس کا اپنا Attitude ہوتا ہے ۔
عام مفہوم میں Attitude کے معنی رویہ کے ہوتے ہیں لیکن آج کل عام طور پر اس کے معنی تکبر یا انا سے لیا جانے لگا ہے ۔جیسا کہ کچھ لوگوں کے ناگوار لہجے پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص میں Attitude بہت ہے ۔حالانکہ کسی کا لہجہ درست نہیں ہے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کا رویہ یا attitude اچھا نہیں تھا ۔لیکن اس میں Attitude بہت ہے یہ کہنا درست نہیں ہے لیکن یہ attitude کا ایک منفی پہلو ہے جو عام طور پر ہندی اور اردو والوں کے حلقے میں مستعمل ہو چکا ہے ۔اسی لفظ کو اگر اس کے مثبت معنی میں لیا جاۓ تو اس کے معنی خود اعتمادی اور غیرت کے بھی ہوتے ہیں ۔جبکہ خود اعتمادی کو انگلش میں self reliance کہتے ہیں ۔لیکن کچھ لفظ میں اتنی لچک اور کشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے منفی اور مثبت دونوں پس منظر میں استعمال ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ ہر طرف سے تنہا ہو جاۓ کے باوجود جب جب کوئی بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی جدوجہد کرنا نہ چھوڑے تو اسے خوداعتمادی کہتے ہیں ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ attitude اس کے پاس ہوتا ہے جسے دنیا نے تنہا چھوڑ دیا ہوتا ہے یا وہ کسی حالات کی وجہ سے تنہا ہو جاتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:تاریخ کا گمشدہ کرادر:عطیہ فیضی
اسی بحث کو اگر ہم سیاسی پس منظر میں غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں کی قیادت کرنے والے دنیا کے جتنے بھی لیڈر اور رہنما رہے ہیں ان کے اندر جتنا زیادہ attitude رہا ہے وہ اتنے ہی بہادر اور بے باک ہوۓ ہیں ۔ان کی پہچان قوموں سے نہیں بلکہ قوموں اور خاندانوں کی پہچان ان کی وجہ سے ہوئی ہے ۔انہوں نے اپنی ناکامی کا رونا یہ کہہ کرنہیں رویا یا یہ شکایت نہیں کی کہ لوگ اچھے نہیں ہیں یا ان کی قوم نااہل تھی اور انہوں نے اپنی جدوجہد ترک کرکے گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔کامیاب رہنما یا تو قوموں کو اہل بناتا ھے یا وہ اس کے اندر اہلیت پیدا کرتے کرتے شہید ہو جاتا ہے یا اگر کبھی اس کو خود اپنی قوم کی طرف سے ہی جان خطرہ لاحق ہو جائے تو بہت سے ایسے لیڈروں نے جلاوطنی کی زندگی کو بھی ترجیح دی ہے ۔دنیا میں آج بھی جس قوم کے قائدین کے اندر یہ دو چیزیں یعنی غیرت اور خوداعتمادی کی صفات ہے وہ اپنے مخالفین کی ٹکنالوجی سے بھی مرعوب نہیں ہے اور انہوں نے اپنی جدوجہد بے سروسامانی میں بھی جاری رکھی ہے ۔اسی کی مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہی مومن کی صفات بھی ہے ۔یعنی خدا کا مطلوبہ مومن وہ ہے جس میں غیرت ،خودداری اور خوداعتمادی کا جذبہ ہو ۔قرآن میں جب یہ آیت آتی ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو تو اس کا مطلب صاف ہے کہ اگر آج اہل ایمان مغلوب ہیں تو اس لئے کہ وہ اپنی ایمانی غیرت و حمیت اور خوداعتمادی سے محروم ہو چکے ہیں ۔اس کے برعکس عبادات کے نام پر تو مسجدیں آج بھی آباد ہیں ۔دعوت و تبلیغ بھی پہلے سے زیادہ ہو رہی ہے ۔شاندار مسجدیں اور مدرسے بھی پہلے سے زیادہ تعمیر ہو چکے ہیں لیکن ان سب کے باوجود اہل ایمان اصل غیرت اور خودداری سے محروم ہیں تو اس لئے کہ وہ یا تو مال کی محبت میں گرفتار ہیں یا ان کے اندر عمل کے نام پر صرف دکھاوا اور فلسفہ ہی رہ گیا ہے ۔اقبال نے اپنی قوم کے زوال ایک وجہ یہ بھی بتاتے ہویے لکھا ہے کہ
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی