مفتی ناصرالدین مظاہری، استاذ مظاہر علوم وقف سہارنپور
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین نے اپنی مجلس میں ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ رائے پور خانقاہ کے قرب وجوار میں موجود درخت اور پتے بھی ذکر خدا کرتے تھے پھر فرمایا کہ حضرت نانوتوی ایک دفعہ رات کو تھانہ بھون میں ذکر الہی میں مصروف تھے، جب حضرت نانوتوی الااللہ کی ضرب لگاتے تو خانقاہ کے باہر دیوار کے متصل کسی چیز کے پٹکنے (پٹخنے) کی آواز مسموع ہوتی ،باہر جا کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ جب حضرت نانوتوی کی ضرب لگتی ہے تب باہر موجود ایک سانپ بھی زور سے اپنے سرکو زمین پر پٹکتا(پٹختا) ہے._
*_کاندھلہ، نانوتہ، تھانہ بھون، گنگوہ، انبیھٹہ، دیوبند،جلال آباد، بڈھانہ، پھلت،رام پور منیہاران، جھنجھانہ، یہ سب روحانی وعرفانی مواضعات و دہات سہارنپور یا اس کے مضافات میں شامل ہیں، ان جگہوں پر ذکر کے حلقے لگتے تھے، اصلاح باطن کی دکان معرفت سجتی تھی، رضاء رب کے نسخے تقسیم ہوتے تھے اور عشق الہی کے جذبے پیدا کئے جاتے تھے، جو سعادت مند خانقاہوں میں آتے وہ بھی اور جو نہیں آپاتے وہ بھی کوئی محروم نہ رہتا تھا، سب ہی ایک تھے سب ہی نیک تھے۔
فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی کا ارشاد ہے کہ گنگوہ میں مزار کے قریب تالاب پر فجرسے پہلے بہت سے دھوبی کپڑے دھلنے آجاتے تھے، دھوبیوں کی عادت تھی کہ وہ جب کپڑے کو اوپر اٹھاتے تو لاالہ کہتے اور جب کپڑے کو اوپر سے پزاوند(پٹرا، یا تختہ) پر مارتے تو الااللہ کہتے تھے، ان کی یہ ضربیں سہارنپور کی طرف سے آنے والے لوگ دومیل دور سے سن لیا کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
زاہد حسن نام تھا، مظاہرعلوم میں گھنٹہ بجانے کی ذمہ داری تھی، وقت پر گھنٹہ بجاتے تھے تاکہ اسی کے مطابق اسباق ختم اور شروع ہوسکیں، یہی زاہد حسن گھنٹہ پر ہتھوڑے کی ضرب لگاتے وقت زور سے کہتے "بول رے گھنٹہ اللہ ہو”۔
یہ سب واقعات ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ جب ماحول اتنا نورانی اور اوقات اتنے روحانی ہوں تو کیا چڑیا، کیا جانور، کیا حشرات الارض اور کیا اثرات(اجنہ) سب اس کا اثر قبول کرتے ہیں، ذی روح اور غیر ذی روح کی قید بھی ختم ہوجاتی ہے چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ابومسلم خولانی نے تسبیح پڑھ کر کھونٹی سے لٹکادی پھر بھی تسبیح متحرک تھی دانے گررہے تھے آواز برابر آرہی تھی”الااللہ،الااللہ ،الااللہ "