Slide
Slide
Slide

مدتوں رویا کریں گے تجھ کو یہ اہل چمن

       بر حضرت مولانا اسلام صاحب قاسمی (نوراللہ مرقدہ) استاذ حدیث و ادب دارالعلوم وقف دیوبند 

از:     محمود اختر کیفی

 اس دنیائے آب و گل میں ایک عرصۂ دراز سے نوع بشر کی آمد و رفت ہوتی رہی ہے ، ہر کوئی اپنی میعاد پر آتا ہے اور خالقِ حقیقی کے بلاوے پر دائمی خیر آباد کہہ جاتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کی جدائی ہمارے لیے   قدرے غمناک ہوتی ہے ، وقتی رنجشیں ہوتی ہیں، احباب و متوسلین ماتم کناں ہوتے ہیں اور پھر  زندگی کا پہیہ یونہی بدستور جاری وساری رہتا ہے ۔

 تاہم بعض نابغۂ روزگار اور  عبقری شخصیت کی دائمی فرقت اس قدر اذیت ناک اور ماتم داری ہوتی ہے کہ ، جن کی جدائیگی سے ہر نوع بشر  حیرت و استعجاب کی کیفیت میں مبتلا متاثر و متأسف ہوتا ہے ، پورا عالم ان کی رحلت سے سوگوار ہوتا ہے ہر سمت آہ و بکا کی صدائیں گونجنے لگتی ہے ۔

   ان سے جڑی بہت سی یادیں محض ایک دلخراش داستان بن جاتی ہیں ، لوگ ان کے اوصاف و کمالات اور دیگر خوبیوں کو مختلف الفاظ  کی لڑی میں پرونے کی کوششیں کرتے ہیں ؛  لیکن ان کے باوجود ان احساسات وجذبات اور  کیفیات کی صحیح ترجمانی اور ان کی عکاسی  کرنے سے الفاظ و جملے نہایت ہی سطحی اور بے معنی ہوتے ہیں ۔

 جن میں سے ان خصوصیات کا مصداق اور مطمح نظر عظیم ترین ہستی،  ہمارے روح رواں،  حساس اور  زندہ دل شخصیت حضرت استاذ العلماء مولانا اسلام صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ (استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند”)  کی ذات گرامی ہے ۔

جو  ابتلاء و آزمائش کے ایک طویل عرصہ کے بعد مختلف امراض سے حیات مستعار کی جنگ لڑتے ہوئے بالآخر  ( ٢٦ ذیقعدہ ١٤٤٤ھ بمطابق ١٦ جون٢٠٢٣ بروز جمعہ) راہی ملک عدم ہوگئے۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون ) 

          یقیناً حضرت مولانا اسلام صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ کی دائمی فرقت سے قوم و ملت کا بہت بڑا خسارہ ہوا ، آپ کی غیر  موجودگی  سے علمی  دبستان میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ، طلبہ کی ایک بڑی تعداد علمی استفادے سے محروم ہوگئے، جس کی تلافی کے لیے اس کے متبادل شخصیت کا پایا جانا مستقبل قریب میں مشکل تر معلوم ہوتا ہے ۔

     یوں تو حضرت رحمہ اللہ کی پیدائش(” ١٩٥٤ء” بمقام” راجہ بھٹیا، ضلع جامتاڑا جھارکھنڈ) میں ہوئ اور اسی اثناء  آپ نے اپنے ننھال ( بھٹرا ، دمکا، جھاڑ کھنڈ) میں جناب مولوی حاجی لقمان صاحب سے اردو و فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ   سہ١٩٦٢ء کو علاقائی مدرسہ ( جامعہ حسینہ گریڈیہ جھاڑکھنڈ ) میں اول عربی کے لیے داخلہ لیا ، وہاں سے چار سالہ تعلیمی ادوار کے بعد بالآخر آپ نے سہ١٩٦٧ ء کو ” مظاہر العلوم سہارنپور” میں شرح جامی کے لیے داخلہ لیا ، حتیٰ کہ وہاں ایک سال کسب فیض کے بعد (سہ ١٣٨٨ھ مطابق١٩٦٧ء) دارالعلوم دیوبند میں پنجم عربی کے لیے قبول کرلیے گئے ، پھر اسی تعلیمی سرگرمی کے ساتھ (١٣٩١ ھ، مطابق ١٩٧١ء) کو عالمیت سے فراغت حاصل کی ۔ ان کے علاوہ آپ رحمتہ االلہ علیہ مختلف شعبہ جات سے منسلک ہوکر اپنی صلاحیتوں کو مزید تقویت و جلا  بخشی ۔

   آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تدریسی زندگی کا آغاز باضابطہ طور پر  دارالعلوم وقف سے ہوا تھا،  آپ نے گلشن قاسمی کے وفادار اور باغبان  کی حیثیت سے شجرۂ طیب کی خوب آبیاری کی ،  اس کی ترویج و ترقی  کے لیے زندگی کا بیشتر حصہ گزار دیا ، کسم پرسی کے عالم میں آپ نے فقر و فاقہ ، محنت و مجاہدہ کو ترجیح دی ، باغ طیب کو اپنی محنت و کدو وکاوش اور بے پناہ قربانیوں کے ذریعے پروان چڑھایا ،  حتی کہ آپ تادم حیات یہی کے ہوکر رہ گئے، بالآخر آپ نے اپنی حیات مستعار کو دارالعلوم وقف کی نذر کردینا باعث افتخار سمجھا ۔

     زندگی کے چالیس سالہ ادوار میں طلبائے مدارس آپ کے   مختلف علوم و فنون سے فیض یاب ہوتے رہے ، آپ نے خدمت دین کے لیے اپنی زندگی کا ایک معتد بہ حصہ وقف کردیا تھا، طلباء کی ایک بڑی تعداد ہر آن آپ سے مختلف علوم و فنون اور دیگر تحقیقات سے متعلق قیمتی معلومات حاصل  کرتے رہتے تھے،  گاہے گاہے آپ رحمۃ اللہ علیہ  کا دوران درس تجربات و مشاہدات کی روشنی میں مختلف گوشوں پر گفتگو کرنا خاص وصف تھا ، جو کتب احادیث اور  دیگر کتابوں سے ماوراء تحقیقات و معلومات مختلف نقطۂ نظر اور دقیق ترین نکات پر مبنی ہوتی تھی ۔

   اللہ تعالٰی نے آپ کو گوناں گوں خصوصیات سے نوازا تھا ، آپ نہایت ہی خوش مزاج ، خوش اخلاق، ملنسار اور  نیک طبیعت انسان تھے ، آپ کے مزاج میں مزاحیہ عنصر غالب تھا ، آپ اصول کے پکے اور کام کے دھنی شخصیت تھے ، طلبہ کے تئیں نہایت ہی ہمدرد اور غمخوار تھے ، عبارت خوانی کرنے والے طلبہ کا نام جاننا پسند کرتے تھے ، آپ کو صحاح ستہ بالخصوص مسلم شریف کی تدریس سے خاص لگاؤ تھا، درایت اور روایت حدیث پر کلام کرتے ہوئے بالخصوص اسماء الرجال ، ثقہ اور غیر ثقہ روات پر محققانہ جامع ترین گفتگو فرماتے تھے ، آپ کو  تاریخ پر خاصی گرفت تھی ، حافظہ اتنا قوی اور مستحکم تھا کہ تاریخ ، واقعات اور زندگی سے جڑی ہر ایک کو سہ عیسوی اور ہجری کی تاریخ سے بیان کیا کرتے تھے ، حتیٰ کہ دوران درس آپ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میری صحت متاثر ہونے کے بعد اللہ تعالٰی نے مزید میرا قوت حافظہ مستحکم کردیا ہے ، جس کا ظہور آپ کی تقریرات سے بخوبی ہوتی تھی ۔

آب انتہائی جرأت مند اور بلند حوصلہ شخصیت تھے ، ضعف و نقاہت اور پے بہ پے جان لیوا عوارضات کے باوجود بہت ہی اطمینان قلبی کے ساتھ  نفاست و نظافت  اور اپنے مجال کے اعتبار سے عمدہ لباس زیب تن فرمانے کا اہتمام کرتے تھے، آپ کا تشخص ، آپ کی خود داری نمایاں تھی حتیٰ کہ کسی بھی  معاملے محتاج گی کا اظہار نہیں کرتے تھے ،  صحت کی بد نظمی کے بعد آپ کی نطق گویائ کافی متاثر رہی ، آنکھیں بھی دھندلا پن کا شکار تھیں تاہم اس حالت میں بھی مسلم شریف اور بخاری شریف کا درس  حتی الوسع پوری آب و تاب کے ساتھ دیا کرتے تھے ، ادائیگئ الفاظ میں اس قدر کوشش رہتی کہ طلباء بآسانی احادیث کی توضیح و تشریح سے مطمئن ہوجائے ،  زندگی سے وابستہ ہر چیز میں آپ کا ذوق نہایت ہی اعلیٰ اور معیاری تھا ، شبابیت کے زمانہ میں آپ ایک مرد مجاہد کی طرح محنت و جفاکش انسان تھے ، آپ اولو العزم اور صبر و استقلال کے پیکر تھے ۔

 آپ کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اہل علم کی معیت ملکی و غیر ملکی اسفار کرنا  آپ کو پسند  تھا ، امام بخاری کے مزار پر حضوری کے تذکرہ کے ساتھ "شیخ عبد الفتاح ابوغدہ حلبی رحمہ اللہ علیہ” سے اپنی ملاقات اور ان سے حاصل شدہ سند حدیث کا واقعہ اہتمام کے ساتھ اپنی زیر گفتگو لاتے تھے اور اس کے ضمن میں بہت سی مفید ترین باتیں سننے کو ملتی تھیں۔

   حضرت رحمہ اللہ کا اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ ایک والہانہ عشق تھا ، آپ اپنے اساتذہ سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے ، مختلف اساتذہ کرام کا ذکر خیر کرتے رہتے تھے ، آپ کو کون سی کتاب کن سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تھا اور متعلقہ کتب کے اساتذہ کا طرزِ بیان اور انداز افہام کیا تھا ؟ ان تمام خوبیوں کو خوب بیان کرتے تھے ۔

 ایک بار آپ نے مقامات حریری کے اشعار کے تعلق سے یہ بات کہی کہ مجھے اس کتاب کے اکثر اشعار یاد ہے ،جس میں آپ نے خود کی طرف کوئی اشارہ منسوب کرنے کے بجائے اپنے استاذ محترم کے کمال درجہ، انداز تدریس کی مدح سرائی کی اور فرمانے لگے کہ یہ میرا کمال نہیں ہے کہ مجھے مقامات کے اشعار اب بھی یاد ہے ؛ بلکہ یہ ہمارے استاذ محترم کا کمال ہے کہ انہوں نے ہمیں اس طرح یہ کتاب پڑھائ تھی ۔

ایسے ہی آپ کو خانودۂ قاسمی سے ایک قلبی لگاؤ تھا ، ان کی تعظیم و تکریم، ان کا احترام و تقدس ہر لمحہ اپنے دل میں برقرار رکھتے تھے ، ان کے لیے ایثار و ترجیح کا پہلو پیش پیش ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے آپ کو خانودۂ قاسمی کی مقناطیسی محبت  تا دم حیات فکر ناناتوی اور حکمت طیب سے ہم آہنگ ہونے پر معاون رہی ، حتیٰ کہ آپ اسی بے لوث عشق و محبت کے ساتھ مہد سے لحد تک کا سفر طے کر گئے ۔

  تاہم آپ کی زندگی کے کن کن گوشوں کو صفحات کی نذر کروں اور کن سے پہلو تہی کروں ؟ جس کے لیے صفحات  کی فراوانی کے ساتھ  مواد خیز الفاظ کی بہتات اور جملوں ذخائر چاہیے،   جو مجھ سے بے بضاعت اور کوتاہ بیں طالب علم کے لیے ممکن نہیں ۔

   لیکن اس کے باوجود ناکارہ نے اپنے گھسے پٹے الفاظ اور تنافر و تعقیدات سے پر بے ترتیب جملوں میں حضرت سے وابستہ کچھ یادوں کے لمحات  مقید کرنے کی نا تمام کوشش کی ہے ، تاکہ کل بروز قیامت آپ کے محبین میں مجھ جیسے کا بھی شمار ہوجائے اور آپ کی شاگردی کے صدقہ سے ہمارا بھی بیڑا پار ہوجائے ۔

  افسوس کہ کل جن کے دم سے اس چمن میں بہار تھی وہ چمن آج  اجڑ گیا ہے ، جن کی خوشبو سے یہ گلشن سر سبز و شاداب اور معطر تھا آج وہ بدمزگی اور ویرانیت کا شکار ہے ۔

 حضرت کے داعئ اجل کو لبیک کہنے پر  ہزاروں لوگ ان کی کمی محسوس کرتے ہیں ، ان کی جدائگی کی ٹیس اور کسک ہمیں اندر سے کھائ جارہی ہے ؛ لیکن اس کے باوجود آپ خود کو ایسی بھول بھلیا میں رپوش کرلىے ہیں ، جن کی واپسی کی کوئ سمت نہیں ہے،  جن کی روانگی  ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوگئ اور یہی نظام قدرت کا مسلمہ دستور العمل ہے ۔

 اخیر میں بارگاہِ الٰہی میں دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے تمام محبین و متوسلین ، متعلقین اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے،  ان کے خانودۂ میں پوری امت کے لیے حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے ۔۔

 آمین یارب العالمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: