محمد قمرالزماں ندوی/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ ، پرتاپ گڑھ
خدائے وحدہ لا شریک کی آخری (آسمانی،ربانی و الہامی) کتاب قرآن مجید ،کتاب ہدایت اور قانون شریعت بھی ہے اور اخلاق و موعظت بھی،دعاؤں کا مجموعہ بھی ہے، اور حکمت و دانائی کا خزانہ بھی،اور دیگر آسمانی صحیفوں و کتب الہیہ کی مجموعی صفتوں کا حامل بھی،اس قرآن کریم میں دین کامل کے تمام عقائد بھی ہیں اور مراسم عبادت بھی،تمام معاملات کے اخلاق و قوانین بھی ہیں اور انسانی زندگی کے ہر شعبے اور گوشے کے لئے کامل ہدایات بھی،اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا : ما فرطنا فی الکتاب من شیئ ۔ہم نے اس کتاب (ہدایت) میں کوئی چیز تشنہ نہیں رکھا ۔
مکاں فانی مکیں آنی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے
قرآن کریم حکمت و معرفت کا خزانہ اور پند و موعظت کا مجموعہ ہے، اس کی آیتیں محکم اور مضبوط سے مضبوط تر ہیں،بعض حکمت و مصلحت کے اعتبار سے مجمل اور متشابہ بھی ،یہ حق کا علم بردار ہے اور اہل تقویٰ اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت و رحمت کا سرچشمہ ہے ۔ قرآن مجید حق اور صراط مستقیم کا رہنما اور گائڈ ہے اور گمراہی اور بے راہ روی سے بچنے کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے ۔
قرآن مجید اللہ کی سب سے بڑی، آخری اور مکمل کتاب ہے یہ کسی علاقہ،خطہ، عہد یا رنگ و نسل کے لئے نہیں ہے، بلکہ تمام انسانوں کے لئے نازل کی گئی ہے ،ہر خطے ہر زمانے اور ہر رنگ و نسل کے لوگ اس کے مخاطب ہیں ،اللہ تعالی نے اس کے بارے میں ابتدا ہی میں یہ اعلان فرما دیا، کہ یہ تمام انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کی کتاب ہے ۔ جو اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنا چاہے ۔ ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی بھی راستہ اسی مسافر کے لئے صحیح اور سیدھا ہو سکتا ہے جو جاننے والوں کے بتانے یا نشان دہی کے مطابق اس پر چلے ۔
قرآن مجید کا پیغام عالمگیر آفاقی اور ابدی پیغام ہے، اس کے صفحات ایسی آیات سے لبریز ہیں، جن سے بندگان الہی کے دلوں میں توحید کا نور روشن ہوتا ہے ۔ اس کی آیتیں خدا سے محبت و تعلق میں جوش اور عبادت و ریاضت کا ولولہ پیدا کرتی ہیں ۔ قرآن مجید سے تعلق،اور وابستگی انسان کو اللہ سے جوڑتی اور تقویٰ والی زندگی گزارنے کا راستہ ہموار کرتی ہے اور راہ حق سے بھٹکنے نہیں دیتی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان حق رسالت سے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا تھا :وانی قد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم به کتاب اللہ۔ اور بیشک میں نے تمہارے لئے ایسی کتاب چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑ لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ اور وہ ہے کتاب اللہ ۔
اللہ تعالٰی نے اپنے اس کلام میں ایسی تاثیر اور کشش رکھی ہے کہ جو اسے سن لیتا ہے، وہ مسحور ہوجاتا ہے ،تلاوت کی آواز سننے والا بے خود اور مست ہوجاتا ہے، اس کا دل قرآن مجید کی عظمت و رفعت اور تقدس کے سامنے جھک جاتا ہے، اور وہ قرآن کا عاشق اورشیدائئ بن جاتا ہے ۔ تاریخ کے صفحات اور سیرت کے اوراق میں سینکڑوں واقعات و حکایات اس سے پر ہیں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کو اسی قرآن مجید کی تاثیر اور کشش نے اپنی طرف کھینچ لیا اور فورا حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔
یہ بھی پڑھیں:
دوستو بزرگو اور بھائیو!
قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے، یہ انسانیت کے لئے ابدی پیغام اور زندہ دستور العمل ہے، یہ بیک وقت دماغ کو بھی مطمئن کرتی ہے اور بربط دل کو چھیڑتی بھی ہے ،یہ ایک انقلاب انگیز کتاب ہے،جیسے سورج کی تمازت میں کبھی کمی نہیں آسکتی اور سمندر کی وسعتوں کو کم نہیں کیا جاسکتا ،اسی طرح اس کتاب کی اثر انگیزی، اس کی تاثیر، دلوں کو زیر و زبر کر دینے کی صلاحیت اور فکر و نظر پر چھا جانے کی طاقت میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی،یہ رواں دواں زندگی میں انسان کی رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے اس کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آسکتا ،خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے ،جو اس بات کا اعلان ہے کہ قرآن مجید قیامت تک اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ محفوظ رہے گا ۔ ( ماخص و مستفاد حقائق اور غلط فہمیاں صفحہ ۲۲)
قرآن مجید کی اس عظمت و رفعت اور تقدس و تاثیر کے باوجود آج مسلمانوں کا رشتہ قرآن مجید سے کمزور ہوتا جارہا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی تعلیمات و ہدایات سے دوری کی ہی کا انجام اور نتیجہ ہے کہ ہم مسلمان تمام میدان میں اور زندگی کے ہر دوڑ میں پیچھے ہوگئے ہیں، قرآنی احکامات اور ربانی تعلیمات کو ترک کرنے ہی وجہ سے باطل طاقتیں ہمارے اوپر حاوی اور قابض ہیں ،اور ہم محکومی و غلامی کی زنجیروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ذلیل و خوار ہو کر گمنامی اور بے وقعتی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ مسلمانوں کی رفعت و بلندی اور سرفرازی و کامرانی مضمر اور پوشیدہ تھا قرآن مجید سے وابستگی پر اور جب قران مجید سے ہماری وابستگی اور ہمارا رشتہ و تعلق کمزور ہوگیا تو ذلیل و خوار اور رسوا ہو گئے ،علامہ اقبال مرحوم نے اپنے ایک لافانی شعر اور نغمہ میں کہا تھا :
وہ زمانےمیں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
افسوس آج امت مسلمہ قرآن مجید کی طرف سے غفلت کا شکار ہے ،اس کو سمجھنا اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے معانی مطالب اور پیغام تک رسائی حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، وہ اس کی تلاوت سے بھی بہت حد تک بے نیاز ہوگئ ہے ۔
آج قرآن مجید کے ساتھ ہمارا معاملہ، ہمارا سلوک اور ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم نے اس کو ہدایت و رشد کی کتاب نہ سمجھ کر قرآن خوانی کی کتاب اور تعویذ و گنڈے کی کتاب سمجھ بیٹھے ہیں ،گھروں میں تو قرآن موجود ہے، لیکن اس کو صرف کتاب تبرک سمجھ کر خوبصورت، قیمتی اور عمدہ غلافوں میں سجا کر طاقوں کی زینت بنا دیا گیا ۔ قرآن ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ اس میں کیا پیغام ہے،؟ اور ہماری دنیوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کا کیا کیا سامان ہے؟ اس میں ہے، مشکل اور کٹھن حالات میں ہمیں قرآن کیا راہ بتاتا اور کیا رہنمائی کرتا ہے؟ اس کی طرف ہماری کوئی توجہ ہی نہیں ہے ۔ اور نہ اس طرف ہماری نگاہ جاتی ہے ۔ جب کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا،اس کے معنی و مفہوم اور پیغام کو سمجھنا اور سمجھانا، اس کی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچانا، امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے ۔ قرآن مجید کا ہم پر یہ ایسا حق ہے ،جس کی جواب دہی سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ اس کے لئے ہر ایک کو اپنی صلاحیت استعداد اور استطاعت کے مطابق اپنے خالق و مالک کے سامنے مسئول ہونا پڑے گا ۔ قرآنی تعلیمات کو فروغ دینا اس کو عام کرنا اور امت تک اس امانت کو صحیح ڈھنگ سے پہنچانا،ہماری زندگی کے اہم فرائض میں سے ہے،یہ کام ہم تحریر تقریر تدریس نجی گفتگوؤں اور عام ملاقات میں مکالموں کے ذریعہ انجام دے سکتے ہیں ۔
ہم اپنے اندر یہ یقین اور ایمان بھی پیدا کریں کہ قرآن مجید وہ ہتھیار ہے، اور یہ وہ آلہ ہے ،جس کے ذریعے ہم مسلمان عروج و بلندی اور رفعت و ترقی کے مقام کو پا سکتے ہیں ۔ ہماری عظمت و رفعت اور سر بلندی کا راز اسی کتاب ہدایت میں موجود ہے ،اس کی تعلیمات پر عمل کرکے ذلتیں کافور ہوسکتی ہیں ۔ غیر اسلامی طاقتوں کو مہر بند کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے اعتراضات اور غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کا اس سے حل نکالا جاسکتا ہے ۔
انگلینڈ کی رہنے والی محترمہ گرفتھس نے کیا خوب حقیقت کی ترجمانی کی ہے وہ لکھتی ہیں :
میرے نزدیک قرآن پاک ہیرے جواہرات کی ایسی کان ہے ،جو کبھی ختم نہ ہوگی اور قیامت تک ساری انسانیت کو سیراب کرتی رہے گی ۔ یہ لازوال رہنمائی کا ایک ذریعہ ہے ،جو انسانی زندگی کے متعلق ایک ایک مسئلے میں رہبری کا فریضہ انجام دیتا ہے ،اس سے وابستہ ہوکر نہ کوئی انسان گمراہ ہوگا اور نہ اسے کسی پریشانی سے سابقہ پیش آئے گا ۔ ( قرآن اور ہم از نسیم غازی فلاحی)
اس سلسلے میں شیخ الھند مولانا محمود حسن رح کی فکری و قلبی آواز بھی ہمیں مہمیز لگا رہی ہے، آپ جب مالٹا کی اسیری سے رہائی پانے کے بعد واپس آئے تو پورے درد اور طاقت سے یہ فرمایا تھا :
میں نے جیل ( مالٹا) کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان آج دینی و دنیاوی اعتبار سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو میری سمجھ میں اس کے دو اسباب آئے ۔ ایک تو مسلمانوں کا قرآن مجید کا چھوڑ دینا ، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ۔ اس لئے میں مالٹا جیل سے عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اسی کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظا و معنا عام کیا جائے ۔ بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مراکز بستی بستی قائم کئے جائیں ۔ بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی و مفہوم سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے ۔ اس لئے ہر خاص و عام اہل اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے مطابق کلام اللہ کو سمجھنے میں کوتاہی نہ کرے ۔ ( مسلمانوں پر قرآن کا حق )
یہ بھی پڑھیں:
آج ضرورت ہے کہ مسلمان پھر پچھلی زندگی کی طرف واپس آئے اور خیر القرون کی زندگی کو نمونہ بنا کر اس کو اختیار کرے ،قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا مشن بنالے ۔اس کو محض طاق نسیاں کی زینت نہ بنائے بلکہ اس پر عمل کرکے ایک بار پھر دنیا کے سامنے یہ ثابت کردے کہ ابھی مسلمان کے اندر طاقت ہے ابھی اس کا ایمان دنیا کے ظاہر اسباب و وسائل سے زیادہ طاقتور ہے ،شرط ہے کہ وہ قرآن کا شیدائی ہو اور گفتار و کردار کا غازی ہو ۔ اس حقیقت کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ عزت و شوکت اور ہدایت نیک نامی و سرفرازی اقبال مندی و سربلندی صرف اور صرف قرآن کریم جیسی کتاب ہدایت پر عمل کرنے سے حاصل ہوگی، کیونکہ کتاب وسنت کا اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید ہی سے کچھ لوگوں کو رتبئہ بلند عطا کرتا ہے اور اسی سے کچھ لوگوں کو بے راہ اور گمراہ کردیتا ہے ۔
خدا کرے یہ حقیقت ہمارے ذہنوں میں بیٹھ جائے اور ہم سب اس پر عمل کرنا شروع کر دیں ۔ آمین