Slide
Slide
Slide

قبل از وقت انتخابات یا بوکھلاہٹ

قبل از وقت انتخابات یا بوکھلاہٹ :پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس کیوں؟

از:  ڈاکٹر محمد طارق ایوپیؔ

           ہم اکثر لکھتے رہے کہ اپوزیشن اگر متحدہ نہ ہوا تو بھاجپا ٹس سے مس نہیں ہو گی ، خیر اب خبر یہ ہے کہ اپوزیشن کےمتعدد نیتاؤں نے ” اپنا نقصان کر کے بھی انڈیا نامی متحدہ محاذ کو جتانے کے عزم کا اظہار کیا ہے”،  اپوزیشن کو جس چیز نے متحد کیا اسکے متعلق بھی ہم بار بار اظہار کرتے رہے ہیں، اپوزیشن کو یہ دیر سے سہی مگر ادراک ہو ہی گیا کہ اب اگر بھاجپا حکومت پھر بنی تو ان کا وجود تو دور ، ممکن ہے کہ ۲۴ کا الیکشن ملک میں آخری الیکشن ہو، یہ بات تو اب وزیر اعظم کے مشیروں کے منہ سے نکل رہی ہے کہ آئین کو تبدیل کر دینا چاہیے، بھاجپا سے ایک چوک ہوئی ، اس نے اگر صرف مسلمانوں کی لنچنگ کی ہی چھوٹ دی ہوتی تو شاید اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ، لیکن اس نے کسی کو بخشا ہی نہیں، مسلمانوں پر ظلم کیا راج کرنے کے لیے ، لیکن ساتھ ہی ہر طبقے اور ہر پارٹی کو بھی نشانہ بنایا تاکہ اقتدار پر مکمل قابض ہو کر اقتدار کی بھوک مٹائی جا سکے ،  نتیجہ یہ نکلا کہ اپوزیشن لیڈروں کو اپنا وجود ہی خطرے میں نظر آنے لگا ، واقعہ یہ ہے کہ سب کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہیں اور کئی بار ہمارا قتل عام ہوا ہے لیکن کبھی بھی خوف و دہشت کا ایسا ماحول نہیں رہا اور عدم تحفظ، بے حیثیتی و بے چارگی کا ایسا احساس عام نہ ہوا جیسا اس دور میں ہے ، درست کہا ادھو ٹھاکرے نے کہ ہم ” بھے مکت بھارت ” یعنی خوف سے آزاد بھارت بنائیں گے ، سچ یہی ہے کہ زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے امن و امان اور کم از کم احساس کمتری اور عدم تحفظ کی نفسیات سے آزادی ضروری ہے۔

            اس محاذ سے بھاجپا میں کتنی بوکھلاہٹ ہے یہ اسکے اقدامات اور خود متکبر و چرب زبان اور مضبوط اعصاب کے سربراہ ملک کی باڈی لینگویج سے بھی ظاہر ہے،  ہم نے پارلیمنٹ اور لال قلعہ سے لے کر ساوتھ افریقہ تک کی تصویریں دیکھی ہیں اور لڑکھڑاہٹ کے گواہ بنے ہیں،  اسی کا نتیجہ ہے کہ پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلایا ہے،  جسکے متعلق تجزیہ کاروں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے،  جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ اس اجلاس میں  On nation One election کا قانون بنائیں یا نہ بنائیں لیکن کم از کم آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات اسی دسمبر میں کرانے اور لوک سبھا کو ملتوی کرنے کا اعلان کریں گے ، ساتھ ہی راجستھان،  مدھیہ پردیش اور ۳۶ گڑھ کے صوبائی انتخابات اسی کے ساتھ کرائیں گے، جہاں ان کی ہار طے مانی جا رہی ہے۔  ان کے نقطہ نظر سے یہ ماسٹر کارڈ اور اپوزیشن اتحاد کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہو گا ۔

          اس صورت حال میں اگر یہ مان لیا جائے کہ اپوزیشن اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے یا اقتدار کے لیے کوشاں ہے تو اس میں کیا برائی ، اقتدار کی بھوک کس میں نہیں اور وجود کی فکر کسے نہیں؟ ہماری ترجیح اس وقت یہ ہونا چاہیے کہ ملک میں ایسی فضا کیسے قائم ہو جس میں انسان سکون کا سانس لے سکے ، ستر فیصد سے زیادہ آبادی کا گھر چل سکے اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں،  اس وقت حصے داری اور نظریاتی سیاست کی بحثیں بے سود ہیں،  یہ سب نارمل حالات کے موضوعات تھے لیکن تب تو لوگ ملائی کھانے میں مست تھے ، یوں بھی اس موضوع پر کوئی بحث اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہماری ملی و سیاسی قیادت زمینی سطح پر جذباتیت سے بچ کر سیاسی بصیرت کے ساتھ مخلصانہ جدوجہد کی مثال نہ قائم کر دے ، اس صورت حال میں بدرالدین اجمل صاحب کی بات اچھی لگی کہ ” ہمارا ایک ایم پی ہے ہمیں نہیں بلایا تو کیا ہوا ہم ملک بچانے کے لیے بلا شرط انڈیا کے ساتھ ہیں ” ، اس کے بعد اگر وہ تبدیلی حالات کا حصہ بن گئے اور فائدہ اٹھا کر مزید زمین بنانے میں کامیاب ہو گئے تو وہی اصل دانشمند کہلائیں گے ۔

             ضرورت اس بات کی ہے ہم بے وقت بلاوجہ کی بحثیں کر کے خود کنفیوژ ہوں نہ دوسروں کو الجھائیں،  یقین مانیے اگر غیروں کی لڑائی میں ہم صرف تماشائی بن کر تماشا دیکھیں اور کچھ سال سنجیدگی سے تعلیم،  معیشت و تجارت جیسے طاقت کے وسائل پر محنت کر لیں تو مستقبل بہت تابناک ہو سکتا ہے، لیکن ہمارا حال بڑا عجیب ہے جب وہ رام اور ہنومان کا نام لے کے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں تو ہم خود ہی بڑھ کر اڑتا تیر اپنے اوپر لے لیتے ہیں،  یہی حال ڈبیٹ سے لے کر میدان سیاست تک ہے ۔

            بہرحال اگر یہ محاذ کامیاب ہو جائے تو پھر لوگوں کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ سطحی سیاست کا شکار نہ ہو کر اپنی تعمیر و ترقی پر توجہ دیں اور ان لوگوں پر خاص نظر رکھیں جو ۹ سال سے غاروں میں پناہ گزین ہیں یا حکومت کی زبان بولتے ہیں،  بھاجپا کے علاوہ کسی کی حکومت ہو یہ اپنے مفادات کی خاطر ہمارا سودا کرنے سے نہیں چوکتے ، ہمارا استحصال کانگریس نے نہیں کیا،  ہم پر ظلم بھاجپا نے نہیں ڈھایا ، ہم اگر اپنے بے حیثیتی کی اس منزل پر پہنچے ہیں جہاں ہمیں صرف اپنے وجود اور زندگی کی فکر ہے تو وہ ہمارے مفاد پرست  ملی و سیاسی قائدین کا عطیہ ہے ، پھر اگر امن و امان کی صورتحال فرصت دے تو سیاسی شعور کی آبیاری کی جائے اور سیاسی حیثیت بحال ہو تو حصہ داری کی بات کی جائے ۔

          باقی ادھو کی تجویز ” بھے مکت بھارت ” کی تعمیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسرو کے سائنسدان لالو یادو کی تجویز پر جلد غور کریں کہ "جیسے چاند پر وہ گھومنے گئے اور دیش کا نام روشن کیا ویسے  دیش کا نام مزید روشن کرنے کے لیے مودی جی کو سورج پر گھمانے لے جائیں”۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: