تحریر: عبدالرَّحیم خان
کل رات نواز الدین صدیقی اور انوراگ کشیپ کی ویب سیریز “Haddi ھڈّی” دیکھ رہا تھا۔ جسمیں یہ دکھایا گیا ہے کہ آج کل انسانی ھڈیوں کا کاروبار کیسے کیا جاتا ہے۔ اس سیریز میں پورا پروسیس بتایا گیا ہے کہ کس طرح کیمیکل کی مدد سے ھڈیوں سے گوشت الگ کیا جاتا ہے اور پھر انہیں کوسمیٹکس، میڈیسین اور دوسرے کاموں کے لئے بازار میں اسمگل کیا جاتا ہے۔
سیریز دیکھتے ہوئے دو باتیں سامنے آئیں۔ ایک، یہ معلوم ہوا کہ صرف ہاتھی ہی مرنے کے بعد سوا لاکھ کا نہیں ہوتا ہے، بلکہ اب بعض انسان بھی مرنے کے بعد زندہ سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دوسرے، کالج کے دنوں میں Medical Jurisprudence میں پڑھے پورے کچھ چیپٹرز کی یاد آگئ کہ انسانی جسم مرنے کے بعد کیسے درجہ بدرجہ سڑتا گلتا اور ڈیکمپوز ہوتا ہے، اور ان درجات کی نشاندہی کی مدد سے فارینسک ایکسپرٹ کو کیسے اندازہ ہوتا ہے کہ موت کتنی دیر قبل ہوئ ہے۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں آئ کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام میں موت کے بعد تدفین میں جلدی کرنے کی تلقین کی گئ ہے۔ آسان فہم زبان میں آپ بھی جانیں:
طبی سائنس کے مطابق موت کا عمل ایک پروسیس ہے۔ دل کی حرکت بند ہونے کی وجہ سے جسم کے خلیات کو آکسیجن پہونچنا بند ہوجاتی ہے اور پھر ایک ایک کرکے خلیات مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ شروعات دماغی خلیات سے ہوتی ہے جو حرکت قلب بند ہونے کے بعد منٹوں ہی میں مرجاتے ہیں، اس کے بعد دل، پھر جگر اور بانقراس کی موت ہوتی ہے جنمیں کہ منٹوں سے ایک گھنٹہ تک لگ جاتا ہے۔ سب سے آخر میں جلد اور دل کے صمامات یعنی Valves کی موت ہوتی ہے جس کا وقفہ گھنٹوں سے پورے دن پر محیط ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر موت کی تصدیق “برین ڈیٹھ” کے حوالے سے کی جاتی ہے اور اعضاء کے تبرعات (Organ Donations) موت کے بعد سے لے کر ایک محدود فترہ تک میں ممکن ہوتے ہیں۔
موت کے بعد نعش میں جو سڑنے گلنے یعنی ڈیکمپوزیشن کا پروسیس شروع ہوتا ہے اسے عموما درج ذیل درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
- ۱۔ پہلا مرحلہ Autlolysis یا Self Digestion
- ۲۔ دوسرا مرحلہ Bloat یا Putrefaction
- ۳۔ تیسرا مرحلہ Active Decay
- ۴۔ چوتھا مرحلہ Advanced Decay
- ۵۔ پانچواں مرحلہ Skelotonization
درج بالا مراحل کی شروعات موت کے کچھ منٹوں بعد ہی ہوجاتی ہے اور حسب موسم و دیگر محرکات ہفتوں سے مہینوں یا سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ ان مراحل میں نعش کے خلیات / سیلس میں خود سے توڑ پھوڑ سے لیکر ھڈیوں سے عضلات کے الگ ہوجانے تک کا سلسلہ شامل ہوتا ہے۔ اس ڈیکمپوزیشن کے پروسیس کے چلتے اگر نعش کی بروقت تجہیز و تدفین نہ کی جائے تو باقی زندہ انسانوں کے ساتھ ماحول پر بھی درج ذیل منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
- ۱۔ ڈیکمپوزیشن اور پیوٹریفکشن کے دوران زیادہ دیر تک نعش ایسے ہی رہنے سے اکثر جلد پر دھبے اور پھوڑے جیسے ابھار نکل آتے ہیں، جو عموما پھٹ جاتے ہیں اور ان سے رطوبت رِستی رہتی ہے۔ اگر متوفیٰ کسی متعدی مرض میں تھا تو قوی امکان ہے کہ اس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوجائیں، بالخصوص معدہ و امعاء کے انفیکشن، ٹیوبرکلوسیس، ہیپیٹائٹس، ایڈز، مینینجوکوکل انفیکشنز وغیرہ۔
- ۲۔ ڈیکمپوز ہو رہی نعش عموما بیکٹیریا اور ٹاکسن پیدا کرتی ہے، جو انسانوں کے ساتھ ساتھ گھر کے اثاثوں تک کو نقصان پہونچا سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ نعش سے Putrescine اور Cadaverine نامی گیس بھی نکلتی ہے جو آس پاس کے لوگوں کی صحت کے لئے مزید نقصاندہ ہے۔
- ۳۔ ڈیکمپوز ہورہی نعش جب Putrefaction مرحلے میں پہونچتی ہے تو اس سے بُو آنی شروع ہوجاتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ یہ تیز ہوکر آس پاس والوں کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
- ۴۔ ناگہانی اجتماعی اموات (مثلا سیلاب، زلزلہ وغیرہ) کی صورت میں انہیں وجوہات کے چلتے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں اور اگر فوری تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو آس پاس کے لوگوں کی صحت اور ماحولیاتی آلودگی کا بڑا خدشہ درپیش رہتا ہے۔
- ۵۔ کچھ تحقیقات کے بموجب اگر نعش کو دیر تک یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو ڈیکمپوزیشن کے چلتے اس سے ریڈئیشن نکلتی ہیں جو آس پاس کی صحت کے لئے خطرہ ہوسکتی ہیں۔
زندگی و موت ہر دو حالات میں انسانی جسم کی حرمت کی پاسداری یا اور بھی دیگر شرعی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پر میں سوچ رہا تھا کہ “أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ” جیسی ھدایات کے ذریعہ تجہیز و تدفین میں عجلت کا جو اسلام کا حکم ہے، ممکن ہے کہ اس کے پیچھے یہ سائنسی حکمتیں بھی شامل ہوں۔