علم کی طاقت، سماجی تقاضے اور ذمہ داریاں
☜: محمد شبیر انور قاسمی
”طاقت“ سے عموما ہمارے معاشرہ میں لوگ جسمانی طاقت مراد لیتے ہیں، حالاں کہ طاقت کامفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتاہے، طاقت ایک وصف ہے جس کی حامل انسان کی مختلف صلاحیتیں ہوسکتی ہیں، جیسے ایک طاقت اخلاق و کردار کی ہوتی ہے، اخلاق و کردار کی طاقت سے بسااوقات وہ کام لیا جاتا ہے جو جسمانی طاقت سے نہیں لیا جاسکتا ہے، جسمانی طاقت سے مال و دولت تو حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن اخلاقی طاقت سے انسان کے دل فتح کیے جاتے ہیں۔ ایک طاقت دولت و ثروت کی ہوتی ہے، ایک لاغرانسان بھی مال و دولت کی طاقت سے بڑے بڑے معرکے سرکرسکتاہے۔ایک طاقت سیاست کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، اس کے ذریعے انسان ملک و قوم کی تقدیرکامالک بن جاتا ہے۔ اسی طرح ایک طاقت علم، ٹکنالوجی اور زبان وقلم کی بھی ہوتی ہے اوریہی سب سے بڑی طاقت ہے، ایک صاحب علم ایک ہزار بے علم شخص پر بھاری ہوتا ہے، ایک تعلیم یافتہ سماج اگرچہ تعدادکے لحاظ سے اقلیت میں ہو، لیکن وہ ایسی قوموں پر بھاری ہوتاہے جو تعداد کے اعتبار سے تواکثریت میں ہو لیکن علم،ٹکنالوجی اور فکرو فن کے سرمایہ سے تہی دامن ہو، دنیا میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں جن کو سرکی آنکھوں سے دیکھاجاسکتاہے۔
پیغمبرعالم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ”طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہترہے“، اس ارشاد نبوی کو طاقت کے وسیع مفہوم کے پس منظر میں سمجھاجائے تو اس وسعت میں یہ بات شامل ہے کہ جو مؤمن علم کی طاقت سے آراستہ ہو، وہ ایسے مؤمن سے بہتر ہے جو علم کی روشنی سے محروم ہو۔ شاید اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ”اللہ تعالی ایسے مؤمن کو پسند فرماتے ہیں جو حرفت اور ٹکنالوجی سے آگاہ ہو“(معجم اوسط:8934) کیوں کہ جو قوم علوم و فنون کی حامل ہوتی ہے، جو قوم ٹکنالوجی اور فکرو فن کا سرمایہ رکھتی ہے، دنیاکو اس کی ضرورت ہوتی ہے، وہ دوسروں کو دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ اپنی صلاحیت سے رتبہ بلند حاصل کرتی ہے، یہود کی تعدادکتنی کم ہے، امریکہ جیسے ملک میں ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے؛ لیکن ذرائع ابلاغ جیسا مؤثر وسیلہ پوری طرح ان کے ہاتھوں میں ہے، بینکنگ کا نظام مکمل ان کی گرفت میں ہے، یہ سب علم اور تعلیم کا کرشمہ ہے۔ جو انگریز برطانیہ سے بھارت آئے، یہاں کے باشندوں کے مقابلے ان کی تعداد کتنی کم تھی، لیکن بھارت کے باشندے انگریز کے غلام بن گئے تھے، یہ کس طاقت کا اثر تھا؟ یہ جسمانی یا عددی طاقت کا نتیجہ نہیں تھا، یہ علم اور ٹکنالوجی کی طاقت کا نتیجہ تھا۔ایک چھوٹے سے ملک جاپان کو ہی دیکھ لیجئے، اس کے ٹکنالوجی کا کرشمہ ہے کہ پوری دنیا اس کے سامنے سرجھکاتی ہے، وہ اپنے معیار میں سب پر فائق ہے، یہ علم اور ٹکنالوجی کا اثر ہے۔ خود ہم اپنے ملک میں برہمن اور اونچی ذات کو دیکھ سکتے ہیں، برہمنوں کی تعداد تین چار فیصد سے زیادہ نہیں؛ لیکن عملا ملک کے اقتدار کی نکیل ان کے ہاتھوں میں ہے، یہ نتیجہ ہے ان کی تعلیمی جدوجہد اور علم کے تئیں شعور کا، اسی کا اثر ہے کہ وہ ملک کے ساٹھ فیصد کلیدی عہدوں پر مسلط ہیں، اس لیے ہمیں ایسی قوم بننا چاہئے جو زیور علم سے آراستہ اور حرفت و ٹکنالوجی کی دولت سے مالا مال ہو، تاکہ ہمارا ہاتھ اونچا ہواور ہم اس لائق ہوں کہ ملک و قوم کو کچھ دے سکیں، جس قوم کے پاس افراد کو دینے کی صلاحیت ہو، وہ اس قوم سے بہتر ہے جس کے ہاتھ میں کاسہ گدائی ہو اور وہ دوسروں سے بھیک مانگتی رہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ”اے پیغمبر! آپ فرمادیجئے کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم سے محروم ہیں، کیا وہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔“ (سورہ زمر:۹)اس آیت میں دو باتوں کی طرف واضح اشارہ ہے، ایک یہ کہ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں برابر نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ وقت اور حالات کا تجزیہ کرنا، اس سے عبرت پکڑنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جو عقل و فہم رکھتے ہوں، صاحب علم اور بے علم کے درمیان عدم مساوات صرف آخرت میں ہی ظاہر نہیں ہوگی بلکہ دنیا میں بھی شب و روزہرمیدان میں یہ فرق ہمارے سامنے آتا رہتا ہے، اگر یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ جہالت کی تاریکی میں جی رہے لوگ نہ صرف دین کے اعتبار سے اہل علم کی برابری نہیں کرپاتے بلکہ وہ ہرمیدان میں ان سے پیچھے رہتے ہیں،ان کے استحصال کا نشانہ بنتے ہیں اور ان کی ذلت و خواری کی داستان طویل تر ہوتی جاتی ہے۔
کلام الہی اور ارشاد نبوی کی روشنی میں ہمیں اپنی تصویر دیکھنی چاہئے، بھارت میں ہم ایک ایسی اقلیت ہیں جو دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود معاشی ترقی، سیاسی حصہ داری اور تہذیبی و ثقافتی تشخص سمیت ہرمیدان میں محرومی کاشکار ہیں، اقلیت اگر سماج میں باعزت مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اکثریت کے برابر یا اس سے بڑھ کر محنت کرے، جب تک ایسی محنت نہیں ہوگی تب تک وہ دوسری قوم کی برابری میں نہیں آسکتی، اسے اپنے حصے سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا، جب ہی ہمسری میں آسکتی ہے، انڈیا کی تمام سرکاری اور غیر سرکاری کمیشن، جنھوں نے مسلمانوں کے حالات کا تجزیہ پیش کیا ہے، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم سے محرومی ہے، ایسا نہیں ہے کہ مسلم بچوں میں ذہانت نہیں ہوتی، بلکہ وہ تعلیمی تسلسل کو برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں، وہ درمیان میں سلسلہ تعلیم کو ختم کردیتے ہیں اور پھر زندگی کے تمام مراحل میں رفتہ رفتہ پسماندہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ ”مسلمان بچوں کی بڑی تعداد ساتویں، آٹھویں کلاس تک پہنچ کر تعلیم ترک کردیتی ہے اور میٹرک تک بھی ان کے پہنچنے کی نوبت نہیں آتی، اس کے بعد ایک بڑی تعداد جو میٹرک کرتی ہے وہ اس سے آگے نہیں بڑھتی، ہرمرحلہ پر یہی صورت حال پیش آتی ہے، یہاں تک کہ اعلی تعلیم میں ان کا تناسب کم سے کم ترین ہوجاتا ہے، تعلیمی تجزیہ کاروں نے لکھا ہے کہ آئی اے ایس، آئی پی ایس وغیرہ میں مسلمانوں کی تعداد اس لیے کم نہیں ہوتی کہ ان کی کامیابی کا تناسب اکثریتی فرقہ کے طلبہ سے کم ہوتا ہے بلکہ یہ تعداد اس لیے کم ہوتی ہے کہ ان امتحانات میں شرکت کرنے والے مسلمان طلبہ کی ہی تعداد کم ہوتی ہے، جب وہ کم تعداد میں شریک ہوں گے تو ظاہر ہے کہ کامیابی میں بھی ان کا تناسب کم ہوگا۔ اس تعلیمی انقطاع کو روکنا مسلمانوں کے لیے ایک قومی فریضہ ہے۔“
ہم اپنے گاوں محلہ کے گھروں کا سروے کریں، تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیں، تو شاید ہی پانچ فیصد بھی ایسے لوگ نکل پائیں، جن کی تعلیم میٹرک تک ہو، مسلمان بچوں کی بڑی تعداد سڑکوں پرگولیاں، گلی ڈنڈا، موبائل میں گیم کھیلتی نظر آئے گی، ان کے پاس اچھے سے اچھا کپڑے ہیں، تفریح کے لیے گھر میں ٹی وی وغیرہ کی سہولتیں ہیں، دنیاوی آسائشوں کے سارے سازو سامان بھی ہیں؛ لیکن والدین تعلیم کی اہمیت اور تعلیمی شعور سے خالی ہیں اور بچے پڑھنے لکھنے کے شوق اور جذبہ مسابقت سے عاری ہیں۔ ہم دن رات جن قوموں کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے یہاں حصول تعلیم کا جذبہ جتنا بے پناہ ہے ہم ابھی اس میں بہت پیچھے ہیں، جن دلت گھروں میں اسکول جانے کا کوئی تصور بھی نہیں تھا اور بچے عقل و ہوش سنبھالتے ہی اپنے ہاتھوں میں کدال اور پھاوڑے لے کر محنت و مزدوری کے لیے کھیتوں اور بازاروں میں گھومتے رہتے تھے، اب ان دلت بچوں کی پیٹھ پر کتابوں کے بھاری بیگ ہوا کرتے ہیں اور انھوں نے اسکول کی دنیا کو اپنے آپ سے آباد کررکھاہے، لیکن ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہم نے ترقی کے بجائے تنزل اور محنت کی بجائے تن آسانی کو اپنی منزل بنا لیا ہے، تاہم اللہ کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں بھی حصول تعلیم کا جذبہ بڑھ رہا ہے، غریب مسلمان بھی اپنے بچوں کو اسکول اور مدرسہ میں داخل کرنے لگے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ چند ہی زینوں پر چڑھنے کے بعد راہ علم کے یہ مسافرحوصلہ کھودیتے ہیں اور اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری نہیں رکھ پاتے، کہیں والدین کی تعلیم کے تئیں بے شعوری اور غفلت وجہ بنتی ہے تو کہیں غربت و مفلسی کے سبب ہمت جواب دے جاتی ہے، کیوں کہ اب تعلیم ایک نفع بخش تجارت بن چکی ہے۔
مسلمانوں کے زیرانتظام اداروں میں بھی ”نہ نفع اور نہ نقصان“ کے بجائے ”زیادہ سے زیادہ نفع“ حاصل کرنے کی پالیسی چل رہی ہے۔یہ بے حد تکلیف دہ رجحان ہے، جو لوگ صاحب مال ہیں، وہ تو اپنے بچوں کو کہیں بھی تعلیم دلالیں گے، لیکن قوم کے جو غریب لوگ ہیں وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا کیا نظم کریں، اصل تو ان کی تعلیم کا مسئلہ ہے، اگر ہم اپنی تعلیم گاہوں تک غریب بچوں کی پہنچ بناسکیں، اسے سستی بناکر تو یہ قوم و ملت کے ساتھ بڑا حسن سلوک ہوگا، کاش تعلیم گاہوں کے مالکان اور ذمہ داران اس پر توجہ دیں۔ باشعور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب مسلمانوں کی ذہن سازی کریں کہ وہ ابھی تکلیفیں اٹھاکر، مشقتیں جھیل کر اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، اس کے لیے فاقوں کو گوارا کرلیں، پھٹے پرانے کپڑوں میں عید گزارلیں؛ لیکن کسی قیمت پر اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم نہ رہنے دیں، تاکہ پستی سے بلندی کی طرف سفر کر سکیں، ساتھ ہی اہل ثروت مسلمانوں میں تعلیمی کفالت کا مزاج پیدا کیا جائے کہ وہ اپنے خاندان، اپنے سماج اور پڑوس کے ایسے دو بچوں کی تعلیمی کفالت اپنے ذمہ لے لیں جن کا سلسلہ تعلیم غربت کے سبب ختم ہو رہا ہو، اس طرح بہت سے بچے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھ کر علم کے زیور سے آراستہ ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ ایک اور کام کرنے کے ہیں، وہ یہ ہیں کہ اس وقت بچوں کی تعلیم کے لیے حکومت کی طرف سے جو سہولتیں دی جارہی ہیں، غریب اور ناواقف مسلمانوں کے لیے ان اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا نظم کیا جائے، معلومات فراہم کرکے ان کی رہنمائی کی جائے، کیوں کہ ایسی اسکیموں تک بچوں کے گارجین کی رسائی نہیں ہوپاتی اور وہ فائدہ نہیں اٹھاپاتے ہیں۔اس لیے اگرہم چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کو طاقتور مومن بنائیں، محتاجی و پستی سے باہر لائیں، اس کے لیے باعزت زندگی فراہم کریں، تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ جہالت اور ناخواندگی کی اس بیماری کو معاشرہ سے دور کرنے کے لیے امت کا ایک ایک فرد اس طرح اٹھ کھڑا ہو جس طرح کسی جاں بلب انسان کو بچانے کے لیے ہر کوئی دوڑ پڑتا ہے۔ شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات۔