ناخدا مسجد کلکتہ کی تاریخی حقیقت
محمد قمرالدین استاذ جامعہ عبداللہ بن مسعود کولکاتا
ناخدا مسجد کلکتہ کی سب سے عظیم الشان ، مشہور و معروف اور بڑی مسجد ہے ، صرف کلکتہ ہی نہیں پورے صوبے میں اسے مرکزیت حاصل ہے ، آج سے تقریباً پونے دو سو سال پہلے حاجی زکریا صاحب نے اس کی زمین وقف کی ہے ، اور انہوں نے خود اپنے پیسے سے تعمیر بھی کی ہے ۔ اس مسجد میں انہوں نے اپنا گھر اور اس کا سارا اثاثہ بھی مسجد کے لیے وقف کردیا ۔ مسجد میں جو پتھر لگے ہوئے ہیں ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو خود ان کے گھر میں لگے ہوئے تھے۔
وہ اپنے وقت کے بہت بڑے تاجر تھے ۔ ننانوے جہاز ان کا چلتا تھا ۔ انہیں کے نام سے زکریا اسٹریٹ شہر منسوب ہے ۔ ان کی وقف کردہ پراپرٹی میں سے مانک تلہ قبرستان اور وہاں کی مسجد ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کے والد ماجد مولانا خیرالدین رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بنیاد رکھی ہے ۔ 1854ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور 1858ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ۔ بعض مضامین میں اس کی تعمیر کی تاریخ 1926ء درج ہے ، اور گوگل میں بھی وہی تاریخ ڈالی گئی ہے ۔ جب کہ حقیقت اس کے علاؤہ ہے ۔ یہی تاریخی سچائی ہے کہ 1854ء میں اس کی بنیاد پڑی ہے اور 1858ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ہے ۔ ہاں 1926ء میں اس تعمیر جدید اور توسیع ہوئی ہے ۔ اور بالائ منزلوں کا اضافہ کیا گیا ہے نیز وضو خانے وغیرہ کی توسیع اور تزئین کی گئی ہے باقی گراؤنڈ فلور اسی قدیم طرز تعمیر پر آج بھی باقی ہے ۔ بعض لوگوں نے اسی توسیع اور تزئین کو اصل تعمیر سمجھ لیا اور وہی تاریخ بیان کردی ۔ اس مسجد میں جتنے پیسے خرچ ہوئے سارے پیسے واقف جناب حاجی زکریا صاحب نے اپنی جیب خاص سے ادا کیا ہے ۔ اس وقت سے لے کر آج تک انہیں کی اولادوں میں اس کی تولیت چلی آرہی ہے۔ کچی میمن برادری آج بھی اس کا متولی ہے ۔ آج بھی ناخدا مسجد کا سارا انتظام و انصرام اسی برادری کے لوگ کرتے ہیں ، وہی امام و مؤذن بحال کرتے ہیں ، وہی ان کا مشاہرہ دیتے ہیں ۔
کلکتہ کے زکریا اسٹریٹ میں واقع اس تاریخی مسجد میں پچھلے بیس برسوں سے امام کا عہدہ خالی پڑا ہوا ہے ، بیس سال پہلے اس مسجد کے امام مولانا صابر صاحب ہوا کرتے تھے ان کے انتقال کے بعد ابھی تک وہاں کوئ امام نہیں ہے ، نماز پڑھانے کے لیے عارضی طور پر دو نائب امام رکھ دئے گئے ہیں ، ایک مولانا شفیق صاحب ، دوسرے قاری نور عالم صاحب ، یہ دونوں نائبین باری باری نمازیں پڑھا رہے ہیں اور دیگر دینی امور بھی انجام دے رہے ہیں ، برسوں سے نمازیوں اور علاقے کے مسلمانوں کا متولیان اور ٹرسٹیان سے پرزور مطالبہ ہورہا ہے کہ اس تاریخی مسجد کے شایان شان کسی امام کا انتخاب کیا جائے ۔ متولیان بھی کافی دنوں سے کسی لائق فائق امام کی تلاش میں تھے ۔ اب انہیں ایک امام صاحب مل گئے ہیں اور متولیوں نے انہیں منتخب کر کے بحال کر دیا ہے ۔ وہ ضلع مئو اتر پردیش کے رہنے والے ہیں ، مولانا افروز احمد ان کا نام ہے ، موصوف تقریباً ایک سو کتابوں کے مصنف ہیں ، ملک اور بیرون ملک امامت و تدریس کا خاصا تجربہ ہے ، اردو ، ہندی اور انگریزی زبانوں پر یکساں مہارت حاصل ہے ۔ یہ متولیان کے اتفاق سے بحال ہو چکے ہیں لیکن وقف بورڈ کی مداخلت کی وجہ سے ابھی مصلے پر نہیں آ سکے ہیں تھوڑی بہت قانونی پیچیدگی رہ گئ ہے ۔ امید ہے بہت جلد یہ پیچیدگی دور ہوگی اور برسوں کا مسلمانوں کا خواب عنقریب شرمندہ تعبیر ہوگا ۔