مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
ایک ایسے دور میں جب مسلم ممالک میں بھی سودی بینک کاری عروج پر ہے اور اسلامی بینکنگ کا تصور اور سود کی قباحت ان کے دلوں سے نکلتی جارہی ہے بلکہ نکل گئی ہے ، روس نے (جو زمانہ تک خدا بیزار اور دہریت پسند حکمرانوں کے زیر سایہ رہا اور اب بھی داخلی طور پر اس نظریہ اور فکر سے پورے طور پر نکل نہیں سکا ہے) اسلامی بینکنگ کے قیام کا اعلان کیا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ کام ستمبر2023سے شروع کر دیا ہے، صدارتی حکم نامہ کے مطابق اسلامی بینک آئندہ دو برس تک روس کے مرکزی بینک کی نگرانی میں تجرباتی طور پر کام کرے گا، اسلامی بینکنگ کا یہ پروگرام پہلے مرحلہ میں مسلم اکثریتی علاقے تاتارستان ، بخارستان ، داغستان اور چیچنیا میں متعارف کرایا گیا ہے۔کامیاب تجربہ کے بعد دوسرے علاقوں میں بھی اس کی توسیع کی جائے گی، روس میں کم وبیش ڈھائی کروڑ مسلمان بستے ہیں، جو سودی کاروبار کرنا نہیں چاہتے، اس لیے روسی صدر ولادیمیر پوتین نے مسلمانوں کے جذبات کی رعایت اور ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے، یہ اس لیے بھی ہے تاکہ شریعة فریم ورک میں کام کرنے والے سرمایہ کاروں کے لیے روس میں سرمایہ کاری آسان ہوسکے اور مشرق وسطی کے ممالک کی توجہ روس کی طرف مبذول ہو سکے۔
اسلامی بینکنگ کا آغاز سب سے پہلے متحدہ عرب امارات کے دبئی میں شروع کیا گیا تھا، شیخ سعید آل لوتاہ نے اسے اپنے سرمایہ سے وقار بخشا، اسلامی فکر اور سوچ کے اس مرد قلندر نے اس میدان میں جوکامیاب تجربات کیے اس نے کئی دوسروں کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا اور اس کے بعد ہی فیصل اسلامی بینک، دبئی اسلامی بینک ، میزان اسلامی بینک جیسے ادارے وجود میں آئے، با خبر ذرائع کے مطابق 2009میں اسلامی بینکنگ کے مجموعی اثاثوں تخمینی مالیت 900ارب ڈالر تھی جو 2020تک بڑھ کر 15000ارب کی مالیت تک پہونچ گیاتھا، الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر اسلامی بینکنگ کی شرح نمو چالیس فی صد ہے اور 2025تک اس کی مجموعی مالیت 77کھرب ڈالر تک پہونچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
2008کے عالمی اقتصادی بحران میں اسلامی بینکنگ کی کار کردگی نے مغربی ممالک کو اس طرف متوجہ کیا تھا، کیوں کہ دنیا کو متبادل سرمایہ کے ذرائع کی تلاش تھی،2014میں روس نے کریمیا کا غیر قانونی الحاق کرلیا، جس کی وجہ سے مغربی ممالک نے اس کے اوپر پابندی لگادی تھی ، ایسے میں اسلامی مالیاتی اداروں نے روس کی گرتی معیشت کو سہارا دیا ، تبھی سے یہ فکر زور پکڑنے لگی تھی کہ روس میں قواعد وضوابط کے ساتھ اسلامی بینکنگ کو فروغ دینا چاہیے اور انٹرسٹ (سود) کے بجائے اسلام کے نظام مشارکت ومضاربت کو معاشی استحکام کی بنیاد بنانا چاہیے، اس وقت جب یوکرین کی طویل جنگ کے سبب روس کا معاشی مالیاتی اور اقتصادی نظام چر مرا کر رہ گیا ہے اور اسے مغربی ممالک کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے ، ایسے میں اسلامی بینک اسے مشارکت اور مضاربت کے اصولوں پر اقتصادی بحران سے نکالنے کا کام کرے گا، ایسی توقع کی جا رہی ہے۔