مولانا محمد شاہد كی وفات کا سانحہ
(مولانا) بدر الحسن القاسمی (کویت)
مظاہر علوم سہارنپور کے ناظم عمومی مولانا سید محمد شاہد الحسینی کی وفات سے ادارہ ایک فعال، باخبر اور ایسی انتہائی متحرک شخصیت سے محروم ہوگیا ہے، جس کا وجود کسی ادارہ کو زندہ رکھنے اور دوسروں کی دراندازیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے موجودہ رسہ کشی کے ماحول میں ضروری ہوتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں جو کچھ ہوا،
25 سال تک کی فتنہ انگیزیوں نے دینی مدرسوں میں دنیاداری کی جو تاریخ رقم کی ہے اور دینی وجاہت اور مدرسہ کے وسائل پر قابو پانے کے لیے جس طرح علم واخلاق کا خون کیا ہے، وہ نظروں کے سامنے ہے اور بعض بڑوں کے دوہرے معیار نے مظاہر علوم کو بھی فتنہ کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ نہیں چھوڑا۔ مولانامحمد شاہد مظاہر علوم کے اس حصہ کے منتظم تھے اور فتنوں سے نمٹنے کی بھر پر صلاحیت رکھتے تھے۔
انہوں نے مظاہرعلوم کی تاریخ لکھی، حضرت شیخ الحدیث کی باقیات کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ انکو نئی زندگی بخشی، یادگار شیخ کے نام سے لائبریری اور بڑا مرکز قائم کیا، حضرت شیخ کے غیر مطبوعہ مسودات کو شائع کیا، خود اپنی ”حیات مستعار“ کی روداد بھی سلیقہ سے لکھی بلکہ حضرت شیخ کے اپنے نام ارسال کردہ خطوط بھی محفوظ کردیے۔
یادگار شیخ کو علم حدیث میں تخصص، عربی ادب کی تعلیم اور کفر والحاد، شرک وبدعت اور دیگر فتنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے مشق وتمرین اور بحث و مناظر ہ کا طریقہ سکھانے کا مرکز بنادیا۔
مولانا کے یہ سب کارنامے ان کی حسنات کا حصہ اور ان کے لیے اجر آخرت کا ذریعہ اورصدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ بہت سی یادوں کے امین اور بہت سے تاریخی واقعات اور دستاویزوں کے محافظ تھے اسلیے ان سے اور بھی بہت سے پہلووں پر روشنی ڈالنے کی امید تھی لیکن افسوس کہ ان کی حیات مستعار کی مدت ہی ختم ہوگئی اور بہت سے منصوبے تکمیل کے مرحلہ کو نہ پہنچ سکے۔
اللہ تعالی ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
چند سال پہلے صرف چند گھنٹوں کے لیے مظاہر علوم گیا تو ان کے کاموں کی قدر ہوئی اور مستقبل میں مزید مفید علمی کاموں کی توقع بھی قائم ہوئی لیکن آج وہ خود اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اب آنے والوں کے لیے ان کی طرف سے صدائے عام ہے :
اهيم بليلي ماحييت فان امت
افوض ليلي من يهيم بها بعدي
رحمه الله واسكنه فسيح جناته ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون