محمد قمر الزماں ندوی استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
آج دنیا میں ہر شخص کو بس اپنے حقوق کا خیال رہتا ہے، لیکن خود ان پر کیا فرائض اور ذمے داریاں ہیں؟ اس کا احساس کم لوگوں کو رہتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے سماج میں ہر شعبہ میں لوگ افراط و تفریط کے شکار ہو رہے ہیں ،اعتدال توازن اور توافق کی فضا اور جھلک بہت کم نظر آتی ہے۔
رشتوں اور ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی معاشرہ میں بے اعتدالی حد سے زیادہ پائی جارہی ہے، اس وقت خاص طور سے لوگوں میں اولاد کے تعلق سے بھی یہ تغیر، تبدیلی اور جذبہ نمایاں طور پر اثر انداز ہے ۔۔ آج ہر جگہ ایک ہی شکایت ہے کہ بچوں پر والدین کے حقوق ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ پہلے والدین پر بچوں کے حقوق ہیں،جس کو ادا کرنا والدین کی ذمے داری ہے ۔ لیکن کیا اس حقوق کی صحیح ادائیگی ہورہی ہے؟ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اکثر والدین یہ کہتے ہیں کہ بچوں پر ان کے حقوق ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ،،تم اور تمہارا مال باپ کے لئے ہے ،، یقینا یہ بات درست ہے، بلکہ سوفیصد درست ہے اور اولاد کو اس حدیث کی روشنی میں عمل کرنا چاہیے ۔لیکن شریعت نے ان والدین پر کیا کیا حقوق عائد کیے ہیں؟ اس کا بھی خیال رکھنا از حد ضروری ہے ۔ افسوس کہ آج سوسائٹی میں اس کا خیال بہت کم ہے یا جان بوجھ کر اس سے پہلو تہی کی جاتی ہے ، مشہور کہاوت ہے کہ روٹی دونوں ہاتھ سے بنتی ہے ۔ والدین بچپن سے اخیر عمر تک اولاد کے سارے حقوق ادا کریں اور بچہ منھ پر طماچہ مارے ؟ ایسا نہیں ہوسکتا ضرور کہیں نہ کہیں خامی ہے ،تعلیم میں ،تربیت میں ،محبت میں ،شفقت میں ،بے جا اصرار یا یک طرفہ کوئی فیصلہ کرنے میں۔ یا اس طرح کی کوئی اور وجہ ہے ،جس کی بنیاد پر اولاد کے دل و دماغ سے والدین کی محبت چھن جاتی ہے اور محبت کے بجائے دوری کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے ، اس کی ایک مثال میں یہاں پیش کرنا چاہوں گا کہ تین چار روز قبل ہم نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ کے دوبچوں میں ایک برسر روز ہو گیا ہے ، دوسرے کے لئے بھی آپ دل سے دعا کردیجیے کہ وہ بھی امتحان میں پاس ہوجائے اور کچھ نمبروں سے جو وہ پیچھے رہ گیا تھا ،اس بار وہ کامیاب ہوجائے اور بڑے بھائی کی طرح انہیں بھی نوکری مل جائے ،تو وہ غصہ میں کہنے لگے کہ قیامت تک کے لیے میں ان کے حق میں دعا نہیں کرسکتا ، چاہے سورج پچھم سے نکل جائے ،میں نے ان کو بہت سمجھایا، لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور کسی طرح قائل نہیں ہوئے ۔
اس رویے نے بھی اس مضمون کو لکھنے پر مجھےآمادہ کیا تاکہ معاشرہ کہاں اور کس حد تک جاچکا ہے اس کا اندازہ ہوسکے۔
یقینا ایک بڑی تعداد اولاد کی والدین کی نافرمانی کرتی نظر آتی ہے جس میں سو فیصد خود بچوں کا قصور ہے ،لیکن بہت سی اولاد جو نافرمانی پر اتر آتی ہے ،والدین کی کوتاہیاں اور کمیاں بھی اس میں شامل رہتی ہیں ، جس کی طرف عموما والدین کا ذہن اور خیال نہیں جاتا ،اور یہ ذہن اس لیے بھی نہیں جاتا کہ ان کے ذہنوں میں یہ تصور ہے کہ میرے حقوق ان پر ہیں ,ان کے حقوق مجھ پر نہیں ہیں ۔۔
مولانا عبدالغفار سلفی صاحب، بنارس نے اس موضوع پر ایک بہت ہی قیمتی اور چشم کشا تحریر لکھی ہے ،جس میں اعتدال اور توازن کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے ،ہم اسے قارئین کے استفادہ کے لئے من وعن پیش کر رہے ہیں ۔
"ہمارے یہاں عموماً جمعہ کے خطبوں میں اور عام تقریروں میں والدین کے حقوق سے خاطر خواہ گفتگو ہوتی ہے، عمومی مزاج ایسا بنا دیا گیا ہے کہ والدین ہمیشہ مظلوم ہوتے ہیں اور نالائق اولاد ان کے ساتھ بد سلوکی کرتی ہے. یقیناً سماج کی ایک تصویر یہ ہے بھی. لیکن سماج کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس کی جانب ہمارے علماء، خطباء اور مصلحین کی توجہ کم ہے اور وہ یہ ہے کہ بہت سارے گھروں میں بگاڑ کا سبب اولاد کی نافرمانی اور سرکشی نہیں بلکہ والدین کی انانیت، ضد اور نا انصافی بھی ہے. کتنے گھر صرف اس وجہ سے برباد ہو گئے کہ والدین اپنی فضول ضد اور ہٹ دھرمی قائم رہے. کتنے گھروں میں ساس کے سوتیلے سلوک نے ساس اور بہو کے رشتے میں ہی نہیں بلکہ اولاد اور والدین کے رشتے میں بھی درار پیدا کردی۔
ہمیں یہ اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ والدین کا مقام اپنی جگہ، انہیں شریعت نے جو مقام و مرتبہ دیا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ صحیح ہی ہوں. رویے ان کے بھی غلط ہو سکتے ہیں، زیادتی ان کی جانب سے بھی ہو سکتی ہے. افسوس ہمیں نافرمان اولاد کے ستم کے مارے والدین کے آنسو تو خوب دکھتے ہیں لیکن والدین کے ظلم اور نا انصافی کی شکار اولادیں ہماری توجہ کا مرکز نہیں بن پاتیں۔
حال ہی میں ایک سفر میں ایسے ہی ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی. ان کے والد صاحب کے پاس لاکھوں کی جائداد اور کھیتیاں ہیں. چھ بیٹے ہیں سب الگ الگ رہتے ہیں، صرف چھوٹا والا بیٹا والد صاحب کے ساتھ رہتا ہے. والد صاحب اپنی تمام جائداد کی آمدنی صرف اپنے ایک بیٹے پر خرچ کرتے ہیں، باقی بیٹوں کی ضروریات سے انہیں قطعاً کوئی مطلب نہیں. حالات یہ ہے کہ دیگر بیٹے اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے لوگوں سے قرض مانگ رہے ہیں اور باپ کی لاکھوں کی جائداد ہوتے ہوئے بھی انہیں اس میں ایک ہھوٹی کوڑی مانگنے کا حق نہیں.. سماج کی یہ بے اعتدالی رشتوں کے تعلق سے ایک خطرناک ذہنیت کو فروغ دے رہی ہے. اگر باپ اولاد کی کمائی پر "أنت ومالك لابيك” والی حدیث سنا کر اپنا پورا حق جماتا ہے جب کہ اہل علم جانتے ہیں کہ اس حدیث میں باپ کو اولاد کے سارے ہی مال میں صرف تصرف کا حق دیا گیا ہے، اسے بیٹے کے کل مال کی ملکیت نہی دی گئی ہے. تو اسی طرح والد کے پاس اگر مال اور سرمایہ ہے اور اولاد ضرورت مند ہے تو شرعاً اور اخلاقا ہر لحاظ سے اس مال میں اولاد کا بھی حق ہے اور اگر والد کسی ایک بیٹے کو خوب نواز رہا ہے اور دیگر بچوں کو محروم کر رہا ہے تو یہی وہ صریح ظلم اور نا انصافی ہے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو (جب وہ صرف اپنے ایک بیٹے نعمان رضی اللہ عنہ کو ایک باغ ہبہ کرنا چاہ رہے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانا چاہ رہے تھے ) متنبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا : "لا أشهد على جور” میں ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا.
بعض گھروں میں یہ مشاہدہ بھی ہے کہ رشتوں ناطوں اور گھریلو مسائل میں والدین کی نہایت فضول ضد کے سبب معاملات خراب ہو جاتے ہیں.. کہیں کہیں والدہ کی طرف سے بہو کے سلسلے میں صریح زیادتی ہوتی ہے. اپنی بیٹی کے لیے اس کے سسرال میں جو چیزیں سخت نا پسند کی جاتی ہیں اپنی ہی بہو کے ساتھ وہ سب روا رکھا جاتا ہے.. سماج کا یہ یک رخا پن آج بہت سارے گھروں میں تقسیم اور درار کا سبب بن رہا ہے۔
والدین کو سمجھنا چاہیے کہ بچے جب بڑے ہو جائیں تو انہیں بہت سارے فیصلوں کی آزادی ملنی چاہیے، ان کی زندگی کے بڑے بڑے امور میں خود ان کی پسند و ناپسند کا لحاظ بھی ہونا چاہیے.. والدین حکمت و محبت کے ساتھ انہیں صحیح اور غلط کی رہنمائی کریں نہ کہ اپنے فیصلے ان پر تھوپیں. ضد اور انانیت سے رشتوں کی ڈور کمزور پڑنے لگتی ہے اور ایک دن ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔
علماء اور مصلحین سے گزارش ہے کہ جب حقوق پر بات کریں تو سماج کے دونوں رویوں پر نظر رکھیں، اولاد کی بے اعتدالی پر گفتگو کریں تو والدین کو ان کے فرائض بھی یاد دلائیں. مجبور والدین کے آنسوؤں کی جانب سماج کی توجہ مبذول کرائیں تو مظلوم اولاد کے مسائل بھی حل کرنے کی کوشش کریں”۔