✍️ عبداللہ ندوی
___________
ذہن و فکر اور وجود پر معاشرہ اور ماحول کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے، موجودہ معاشرہ پر جب ہم طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور اس سوسائٹی ( society) اور کلچر کی اسٹڈی ( study) کے بعد کوئی خیال مرتب کرتے ہیں تو ہمارا معاشرہ اور ماحول گناہوں ، بدکاریوں ، غلطیوں ، اور کوتاہیوں کے عمیق اور گہرے دلدل میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے ، گلی ، کوچہ ، بستی ، بازار ، تعلیمی ادارے ، آفس اور تفریح گاہ ، ہر جگہ ایک بھیانک اور خطرناک دلدل نظر آتا ہے ، جسمیں بچے ، جوان ، بوڑھے ، مردوزن ، امیر و غریب ، شاہ و گدا ، سب یکساں طور پر نظر آتے ہیں ، معاشرہ کی گراوٹ ، علمی زوال ، جبر و قہر ، ظلم و ستم ، عدل وانصاف کا خون ، تعصب و نفرت ، بغض و عداوت ، خرافات و بدعات ، ضلالت وگمراہی ، زناکاری ، شراب نوشی ، سود خوری ، فرقہ بندی ، خوں ریزی ، عصمت دری ، نفس پرستی ، بد اعمالی ، ظلم و تشدد ، اخلاقی پستی ، اور ذلت ورسوائی کو دیکھ کر آنکھیں اشکبار اور قلب و جگر غمگین ہو جاتا ہے ، کہ جو اشرف المخلوقات کبھی ستاروں کی طرح دلیل راہ تھیں آج ذلت ورسوائی کے گڑھوں کی گہرائیوں میں گرتے جارہے ہیں ، حالانکہ انسان جسے اس کائنات کا مخدوم بنایا گیا ہے ، چاند ، سورج ، ستارے ، دریا ، پہاڑ ، بل کھاتی ندیاں ، شجر و حجر ، لیل ونہار کی گردشیں ، باد نسیم کی سبک خرامی ، برق تپاں کی بے قراری ، آفاق کی وسعتیں ، وادی ، صحرا اور مرغ زاروں کے دلکش مناظر ، آفتاب و ماہتاب کی ضیا پاشیاں ، بلبل و سارو قمریوں کی نغمہ ریزیاں ، طاؤس کا رقص ، بسمل کی تڑپ ، قوس و قزح کا حسن ، آبشاروں کا ترنم ، پھولوں کا تبسم ، غنچوں کی چٹک ، پھولوں کی مہک ، آخر کس کے فیضان سے ہے اور کس کے لئے ہے ؟ اس کا نہایت ہی سادہ ، صاف اور واضح جواب یہ ہے کہ یہ ساری کی ساری چیزیں انسانوں کے لئے ہے ، اور اس مالک حقیقی نے ان ساری چیزوں کا اسے مخدوم بنایا ہے ، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ( إن الدنيا خلقت لكم وانكم خلقتم للأخرة) الحديث ، دنیا تمہارے لئے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہو ، مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے اپنے مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیا ہے ، پیارے قارئین کرام! آج مسلم معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، باہمی اتحاد و اتفاق کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے ، ہر شخص خود غرض ، مفاد پرست ، اور دنیا پرست بن چکا ہے ، کوئی مرے یا جئے اس سے کوئی سروکار نہیں ، نوجوان ملی شعور سے خالی اور تہذیب وثقافت سے عاری اور اپنے ملی و دینی شخصیات سے غافل و بے پروا ہ نظر آرہے ہیں ، اسلامی اور غیر اسلامی تحدید اس کے نزدیک بے معنی چیز ہوکر رہ گئی ہے ، مسلم محلوں اور سوسائٹی کا آپ جائزہ لیں تو عام طور پر نوجوان اور مراہق سن کے بچے وقت ضائع کرتے ہوئے کسی چائے خانے پر ملیں گے ، یا تاش کے پتوں پر قہقہے لگاتے ہوئے پائے جائیں گے ، زبانوں پر ہرزہ سرائی ، دھینگا مستی کے مناظر سے طبیعت مکدر ہوجائیگی ، فلم ہالوں اور ٹھیٹھروں میں بھی قطاروں میں مسلم نوجوان اور مسلم خواتین کا اچھا خاصا تناسب نظر آئیگا ، گھروں میں ٹیلی ویژن کے سمیں پردوں پر دکھائے جانے والے فحش مناظر کے دیکھنے والوں میں پورا گھر بلکہ محلہ کے ہر عمر کے لوگ شریک ملیں گے ، نمازوں کے اہتمام سے گھر کے گھر خالی ، اور تلاوت کی جگہ فلمی گیتوں کی دھن اور لے سننے کو ملیں گی ، معاشرہ سودی کاروبار میں لت پت ، اور لین دین میں اسلامی طریقوں کی پابندی کا اہتمام سرے سے ختم ہو تا ہوا نظر آئے گا ، مسلم عورتیں سادھوؤں ، نجومیوں ، اور تعویذ گنڈے دینے والوں کے اردگرد چکر کاٹتی ہوئی نظر آئینگی ، شادی بیاہ کے موقع پر دولہا خریدا جا رہا ہے منگنی اور تلک کی رسم خالص ہندوانہ انداز میں انجام پا رہی ہے ، جہیز کی مانگ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ، اور بچیاں جو رحمت الہی کا مظہر تھیں اب وہ سوہان روح بنتی جا رہی ہیں ، آخر یہ مشرکانہ معاشرہ و ماحول کا اثر ہے یا نہیں ، اسلام میں کہاں جہیز ہے ؟ مختصر یہ کہ یہ تمام ہی خرابیاں ، خرافات و بدعات اور رسومات دن بدن جنم لے رہے ہیں ، ہمیں ان تمام پہلوؤں پر غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے قوت دی ، صلاحیت دی ، علم دیا ، جوانی دی ، پھر معاشرہ اور ماحول سے متاثر ہو کر ایک نوجوان بھکاری ہوجاے ، ہاتھ پھیلائے ، منھ کھولے ، یہ بڑی بے غیرتی ، بے حمیتی ، اور آبلہ فریبی کی بات ہے ، خوددار ، راست باز ، اور غیرت مندوں کا یہ شیوہ اور طریقہ نہیں ہے ، کاش ہمارا مسلم سماج و معاشرہ اس کو سمجھے ، اور نوجوانوں میں یہ فہم و شعور عام ہوجائے ، یہ ساری خرابیاں اور کوتاہیاں دراصل اس دینی شعور کی کمی اور غفلت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ، جس سے ہماری ملت کا خمیر تیار ہوا ہے ، اس کمی کی وجہ سے عام خرابیاں وجود میں آرہی ہیں ، اسلامی معاشرہ ایک مادی معاشرہ بنتا جا رہا ہے ، جہاں ہر وہ خرابی اور برائی پائی جارہی ہے ، جو کسی غیر اسلامی معاشرہ کی شناخت و پہچان ہے ، اللّٰہ تعالیٰ ان تمام ہی خرافات و بدعات سے بچا کر معاشرے کے اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین