Slide
Slide
Slide

اف! بہت برا ہوا

از قلم:ریحان غنی

ان دنوں پوری امت مسلمہ بہت سنگین دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف ملک میں عدم تحمل اور فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول ہے  تو دوسری طرف ہمارے ملی اور مذہبی ادارے بکھر رہے ہیں اور ہماری صفوں میں بری طرح انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ ہم کب ہوش کے ناخن لیں گے۔  اللہ بہتر جانتا ہے ۔ امارت شرعیہ ، ادارہ شرعیہ ، جمعیت علماء ،جماعت اسلامی ہمارے  بڑے ملی اور مذہبی ادارے ہیں ۔ اان کےعلاوہ ہمارے کئی دوسرے چھوٹے چھوٹے ادارے بھی  ہیں ۔  ان سب کی خدمات ہیں۔امت مسلمہ کو ان اداروں پر ناز ہونا چاہئیے ۔یہ ادارے ہمارے اسلاف،ہمارے قابل قدر علماء اور ہمارے بزرگوں کی قیمتی امانت ہیں ۔ انہیں سنبھال کر رکھنا  ہمارا ملی ، مذہبی  اور دینی فریضہ ہے۔ یہ تمام ادارے اپنی اپنی سطح سے ملت کی فلاح وبہبود، ان کی ترقی اور ان کی شیرازہ بندی کے لئے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں ۔ ان میں بلا شبہ خامیاں ہو سکتی ہیں۔  لیکن ان میں  بہت سی خوبیاں بھی ہیں ۔ اس سے ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ ان اداروں اور تنظیموں کو سنبھال کر رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ اگر ان میں سے کسی ادارے میں بھی کسی وجہ سے انتشار پیدا ہوتا ہے تو اس پر ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئیے ، ان کی کارکردگی اور کاموں کا تمسخر نہیں اڑانا چاہئیے ، ان میں کیڑے نہیں نکالنے چاہیئیں ۔بلکہ انہیں انتشار اور بکھرنے سے بچانے کے لئے حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے ۔

امارت کے موجودہ قضیہ کو سمجھنے کے لیے یہ بھی پڑھیں

 امارت شرعیہ  بھی ہمارا ایک بڑا اور معتبر ملی اور مذہبی ادارہ ہے۔ ہمارے بزرگوں اور اکابر قوم وملت نے اس کی بنیاد اپنےآشیانوں کو پھونک کر رکھی ہے۔ اس کی تعمیر وترقی میں ان کا خون اور پسینہ بہا ہے ۔ جس طرح تنکا تنکا جمع کر کے پرندے  گھونسلے بناتی ہے اسی طرح ہمارے بزرگوں نے  گھرگھر،گلی گلی ، قریہ قریہ گھوم گھوم کر اور اپنے تمام ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ہمارے لئے ایسے ادارے بنائے جو مشکل حالات میں ہمارے کام آ سکیں ۔ آزادی کے بعد اج ہم ایک مرتبہ پھر بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں ۔ ہمارے لئے زمین تنگ کی جا رہی ہے ۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر مشتبہ نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہمارے یہ ادارے ہمارے لئے ڈھال ہیں ۔ انہیں ٹوٹنے اور بکھرنے مت دیجئے۔تعمیری کام میں بہت وقت لگتا ہے۔ لیکن تخریب کے اثرات پلک جھپکتے مرتب ہوتے ہیں۔ اسے ہمیں سمجھنا چاہیئے ۔

یہ بھی پڑھیں

بدھ کو سوشل میڈیا پر جیسے ہی یہ خبر آئی کہ جھار کھنڈ میں ایک الگ امارت شرعیہ بن گئی اور اس کے امیر بھی منتخب کر لئےگئےتو کچھ حلقوں میں شادیانے بجے لگے۔خوشیاں منائی جانے  لگیں ۔ فیس بک پر طرح طرح کے تبصرے ہونے لگے ۔ اس سنگین دور میں ایسا کر کے ہم نے ذہنی طور پر بیمار ہونے کا ثبوت دیا۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ  اس  باغیانہ قدم کی مذمت کی جاتی،اس پر افسوس کا اظہار کیا جاتا لیکن اس کے برعکس اس معاملے میں  عمومی طور پر ہمارا طرز عمل ، خاص طور پر سوشیل میڈیا پر ہمارا طرز عمل انتہائی گھٹیا اور افسوسناک رہا۔اگر ہمارا ملی اور مذہبی پلیٹ فارم بھی سیاسی پارٹیوں کی طرح ہو جائے تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا؟ جھارکھنڈ تو بہت پہلے  سیاسی اور جغرافیائی طور پر بہار سے الگ ہو گیا تھا اب امارت شرعیہ بھی الگ ہو گئی ۔ سیاست میں تو کچھ بھی ممکن ہے  ۔ لیکن جو کام اہل سیاست کرتے ہیں وہی کام ہمارے مذہبی اور ملی  رہنما  کرنے لگیں تو ہمارے پاس کیا بچے گا؟.  اکیسویں صدی کے سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں میں فرق یہ ہے کہ سیاسی رہنما اقتدار کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لیتے ہیں، یوپی  اے بنا لیتے ہیں ، این ڈی اے بنا لیتے ہیں ،انڈیا بنا لیتے ہیں لیکن ہم اتنے گئے گذرے ہیں کہ اقتدار کے لئے اپنے  ہی گھر میں سینددھ ماری کرتے ہیں اور اپنی  دکان الگ کھول لیتے ہیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے ۔اس وقت جو عالمی منظر نامہ ہے اس میں کسی ملی اور مذہبی تنظیم  میں انتشار اچھی علامت نہیں ۔اس وقت اتحاد اور تفاق کے ساتھ مل بیٹھ کر ملی ،قومی اور مذہبی مسائل پر غور  و فکر کرنے اور قیادت کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ہماری بنیاد ہل جائے یہ اچھی بات نہیں ۔ماضی میں علمائےکرام نے  ملت کی پریشانیاں دور کی ہیں ،انہیں منجدھار سے نکالا ہے اور ان کی بہترین رہنمائی کی ہے۔ یہ کام آج بھی ہو رہا ہے ۔ لیکن ادھر دیکھا یہ جارہا کہ جو ادارے مضبوط ہیں یا  ہو رہے ہیں انہیں منصوبہ بند طریقے سے  کمزور کیا جا رہا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

  پٹنہ کے سبل پور میں معروف عالم دین مولانا محمد قاسم علیہ رحمہ نے ایک مدرسہ قائم کیا ۔یہ جب مضبوط ہو گیا اور جب حضرت مولانا کا انتقال ہو گیا تو اس میں ایسا جھگڑا ہوا کہ  مقدمہ بازی اور جیل جانے کی  نوبت آ گئی ۔یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ ملک گیر سطح پر ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ خدا کے لئے ذاتی مفاد اور عہدے اور منصب کے لئے اپنی تنظیموں اور اداروں کو کمزور مت بنائیے ۔یقین جانئے ہمارے ادارے کمزور ہوں گے تو پوری امت مسلمہ کمزور ہوگی۔ نفرت ، عداوت، عدم تحمل اور مذہبی منافرت کے اس دور میں ملی اتحاد ہی ہماری سب سے بڑی پونجی ہے ۔ اسے سنبھال کر رکھنا علمائے کرام کا  اولین فریضہ ہے ۔ علماء متحد ہوں گے تو امت بھی متحد ہوگی ۔ جھارکھنڈ میں جو کچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ۔ ماضی میں بھی اکابرین ملت میں اختلافات ہوئے ہیں ۔ بہار میں ہی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ڈاکٹر سید ضیاء الہدی علیہ رحمہ جماعت اسلامی  سے الگ ہوئے ۔ لیکن انہوں نے جماعت سے الگ ہو کر اپنی کوئی الگ دکان نہیں کھولی۔ بہت پہلے امارت شرعیہ کے بانی ناظم ، مفتی اور اس کے اولین ترجمان "امارت ” کے مدیر حضرت مولانا مفتی محمد عثمان غنی علیہ رحمہ بھی نظریاتی اختلاف  کی وجہ سے امارت شرعیہ سے الگ ہوئے لیکن انہوں نے بھی امارت کے متوازی اپنا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا۔یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے نا موافق حالات میں بھی  ہمیشہ ملی مفاد کو مقدم رکھا اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے قوم وملت کو نقصان پہنچے۔لیکن آج حالات بدل گئے ہیں ۔ ذاتی مفادات ہم پر حاوی ہیں اور ہم شعوری یا لاشعوری طور پر سازش کے شکار ہو رہے ہیں ۔ ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا چاہئیے اور اتحاد ہم آہنگی  کی طرف قدم بڑھانا چاہئے ۔اس پس منظر میں جھارکھنڈ میں جو کچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: