تحریر:محمد زاہد ناصری القاسمی/مدرسہ صفۃ الصحابہ حیدرآباد
امارت شرعیہ کا مرکزی دفتر اگرچہ بہار میں ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی شناخت اور پہچان بہار، اڑیسہ اور جھاڑکھنڈ تینوں اسٹیٹ سے ہے، ایک زمانہ تھا کہ یہ تینوں صوبے ایک ہی تھے، مگر اہل بہار کی سوئے قسمت کے یکم اپریل 1936ء کو اڑیسہ اور 15/ نومبر 2000ء کو جھاڑکھنڈ بہار سے الگ ہوگیا، فی الحال یہ دونوں صوبے قانونی طور پر گرچہ بہار سے الگ ہیں؛ لیکن الحمدللہ امارت شرعیہ نے سب کو متحد رکھا ہے اور عموماً دو الگ اسٹیٹ کے باشندوں میں جو اجنبیت محسوس ہوتی ہے، وہ امارت کی برکت سے ان تینوں صوبے کے لوگوں میں نہیں پائی جاتی، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگ جہاں بھی ہوتے ہیں اتحاد واتفاق کے ساتھ رہتے ہیں، آپس میں اپنائیت کا اظہار اور باہم پیار ومحبت کی سوغات بانٹتے رہتے ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ حالیہ دنوں میں جھاڑکھنڈ میں مستقل امارت شرعیہ کے قیام اور حضرت مولانا مفتی نذر توحید صاحب دامت برکاتہم کو وہاں کا امیر شریعت منتخب کرنے کی خبر گردش کررہی ہے، جس نے اتحاد کے علم برداروں اور داعیوں اور مثبت وتعمیری افکار کے حاملین کی نیندیں اڑا دی ہیں اور اس کی وجہ سے شرائط امیر کے پیش نظر موجودہ امیر شریعت برادرم فیصل رحمانی حفظہ اللہ سے متعلق اختلاف رائے، جو تقریباً دب چکا تھا، وہ پھر سے ابھر گیا ہے؛ لہذا اس پس منظر میں دل کی کچھ باتیں ہیں، جو اہل دل کی نظروں کے حوالے کررہاہوں :
صحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : امارت کے طلب گار نہ بنو؛ کیوں کہ اگر وہ مانگنے پر دی جاتی ہے، تو تمھیں اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور بغیر طلب کیے اگر یہ چیز تمھیں ملتی ہے، تو اس پر تمھاری مدد کی جاتی ہے۔ (صحيح بخاري : 6622، صحيح مسلم : 1652) یہ مبارک جملے رسول اللہ صلی اللہ کے ہیں، جس کی صداقت میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں امیر شریعت برادرم فیصل رحمانی حفظہ اللہ اس فرمان نبوی کو سامنے رکھیں اور سنجیدگی کے ساتھ اپنا محاسبہ فرمائیں کہ ان میں امارت کی طلب تھی یا نہیں اور اس کے حصول کے لیے ان کی اور ان کے بھائی کی طرف سے لابنگ کی گئی تھی یا نہیں ؟۔
اگر جواب نفی میں ہے اور وہ بغیر خواہش اور طلب کے امیر شریعت بنائے گئے ہیں تو پھر اس حدیث شریف کے مطابق ان شاء اللہ ان کی ضرور مدد ہوگی، اس صورت میں ان سے درخواست ہے کہ وہ جھاڑکھنڈ کے قضیۂ نامرضیہ کو اپنے لیے ایک آزمائش سمجھیں، اس سے بالکل نہ گھبرائیں، البتہ وسعت قلبی کے ساتھ اہل جھاڑکھنڈ کے ساتھ ساتھ، اڑیسہ کے باشندوں اور بہار کے تمام اضلاع کے لوگوں کی شکایات کو بھی بہ غور سنیں، نیز خود بھی ان سب کے تقاضوں کو جاننے کی سعی اور کوشش کریں اور پھر مناسب فیصلے فرمائیں؛ تاکہ امارت کی اکائی برقرار رہے، نیز مذکورہ واقعہ کی تلافی ہو اور آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہ ائے۔
اور اگر جواب اثبات میں ہے، یعنی وہ بہ زور قوت وطاقت امیر شریعت بنے ہیں تو پھر اسی فرمان نبوی کے مطابق اللہ کی مدد ان کے شامل نہیں ہوسکتی، جھاڑکھنڈ جیسے واقعات اڑیسہ اور پھر ہر صوبہ میں ضلعی سطح پر بھی پیش آسکتے ہیں؛ اس لیے ان کو اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے خود تیار رہنا پڑے گا اور یاد رکھیں کہ اللہ کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا، اس صورت میں اللہ کی مدد کے حصول کے لیے مجھے اب ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے اور وہ ہے بانئی امارت کی مقرر کردہ شرائط کے مطابق امیر شریعت کا از سرِ نو انتخاب۔
اللہ تعالیٰ امارت کی اکائی کو برقرار رکھے، آمین !