Slide
Slide
Slide

میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا

    از قلم:محمد قمرالزَّماں  ندوی 

جنرل سکریٹری/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ  

 

  سب سے اوپر جو عنوان قائم کیا گیا ہے،اس کی تفصیلات کو پڑھنے سے پہلے مندرجہ ذیل نوٹ کو پڑھ لیں :

امارت شرعیہ کے بارے میں رات یہ افسوس ناک خبر ملی کہ جھارکھنڈ امارت شرعیہ اب الگ قائم ہوگئی اور اس کے امیر مولانا مفتی نذر توحید صاحب بن گئے ہیں اور بہت سے علماء کرام نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے ۔ اس خبر کو سن کر تعجب ہوا اور حیرت بھی ، سواد ملت سے کٹ کا چند لوگوں نے یہ کیا فیصلہ کرلیا اور اتحاد و اجتماعیت کیوں پارہ پارہ کردیا گیا؟؟۔ لیکن ماضی میں امیر شریعت کے انتخاب کے وقت جو طرز اور رویہ اختیار کیا گیا اور بعد میں جو انتقامی کارروائی کی گئی اور بعض قابل ذکر افراد کو جن کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کو جس طرح سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا، اس سے یہ قیاس لگایا جارہا تھا کہ مستقبل میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا امارت کو کرنا پڑے گا ۔

امیر شریعت کے انتخاب کے وقت راقم الحروف نے امارت شرعیہ کے ذمہ داروں کو لکھا تھا کہ جھارکھنڈ پر امارت کی توجہ نہ کے برابر ہے ،اور اس صوبہ کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ آج تک یہاں سے کسی ناظم نائب ناظم معاون ناظم کا انتخاب نہیں ہوا ،اس لئے امارت کو چاہیے کہ اڑیسہ اور جھارکھنڈ سے ایک ایک نائب امیر شریعت یا نائب ناظم منتخب کیا جائے ۔ لیکن اس پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ،علماء جھارکھنڈ کی جانب سے بارہا اس کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ لیکن اس کے باوجود اس سے بے اعتنائی برتی گئی ۔

   اس وقت علماء اور اہل علم دو حصوں میں بٹ کر بیان بازی کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ و کلمات بھی استعمال کر رہے ہیں ، اور جو چاہ رہے ہیں لکھ مار رہے ہیں۔

  میری رائے ہے کہ امارت شرعیہ کے معزز عہدے داران مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کریں، اخباری بیان بازی سے پرہیز کریں ، میڈیا کو مواد فراہم نہ کریں اور سب سے ضروری بات یہ کہ جھارکھنڈ اور اڑیسہ کو بھی مناسب نمائندگی دیں اور ایک ایک نائب امیر شریعت اور ایک ایک نائب ناظم دونوں ریاستوں سے منتخب کریں ۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو مسئلہ کا صحیح حل نہیں ہوسکے گا ۔ قرآن مجید نے قولوا قولا سدیدا کا حکم دیا ہے ۔ اس لئے حق بات کہنے اور حق بات سمجھنے کی کوشش ہر ایک کو کرنی چاہیے ۔۔۔ میرے پاس بہت سے لوگوں کے فون آئے کہ آپ کا موقف کیا ہے ؟ میں نے خاموشی اختیار کی ۔ لیکن پھر احساس ہوا کہ نہیں اپنا بے لاگ موقف انسان کو ظاہر کردینا چاہیے ۔۔ میں خود جھارکھنڈ کا ہوں ،اس لئے میرا خیال اور میری رائے ہے کہ فریقین مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالیں ، مولانا مفتی نذر توحید ایک صاحب بصیرت اور متدین عالم دین ہیں، وہ بھی سواد اعظم کی طرف لوٹ آئیں اس جذباتی فیصلہ کو کالعدم کریں ،اپنے موئیدین کو سمجھائیں اور جو شکایات ہیں ان کو سامنے لائیں، اور ذمہ داران امارت شرعیہ ،جھارکھنڈ کو مناسب نمائندگی دیں ،ان کے ساتھ سوتیلہ رویہ نہ اپنائیں ۔ نیز جو علماء اور اہل علم مفتی نذر توحید صاحب کے لئے نازیبا کلمات استعمال کر رہے ہیں، وہ بھی اپنی زبان پر لگام لگائیں ، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری اس تحریر پر آپ لوگ کیا تبصرہ کریں گے ، مجھے جو صحیح اور درست سمجھ میں آیا وہ میں نے لکھ دیا ہے ۔ 

نہ سفیدی کے ہیں دشمن نہ سیاہی کے ہیں دوست 

ہم کو آئینہ، دکھانا ہے،  دکھا دیتے ہیں 

اب قارئین با تمکین اصل مضمون پڑھیں:

    ہشام بن عبد الملک کے زمانئہ خلافت میں ابراہیم بن عیلہ نام کے ایک عالم اور بزرگ تھے، جن کی دیانت و امانت، زہد و تقوی اور خشیت و للہیت کی بڑی شہرت تھی، اور لوگوں میں ان کی نیکی اور بزرگی کا بڑا چرچا تھا۔ ہشام بن عبد الملک نے ان کو مصر کا والی اور گورنر بنانا چاہا، مگر انہوں نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور معذرت کرلی، اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا، ہشام بن عبد الملک کو ابراہیم بن عیلہ کا یہ جواب انتہائی ناگوار گزرا، اس نے غصہ سے کہا کہ تمہیں اس عہدہ کو قبول کرنا ہوگا، ابراہیم بن عیلہ وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اس وقت تو خاموش ہوگئے، لیکن کچھ عرصہ بعد جب ہشام بن عبد الملک نے پھر اصرار کیا تو جواب میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اپنی امانت کو زمین و آسمان کے سپرد کرنا چاہا مگر انہوں نے انکار کردیا، جب اس انکار پر اللہ تعالیٰ ان سے ناخوش نہیں ہوا تو آپ مجھ سے کیوں ناراض ہوتے ہیں؟ خلیفہ نے یہ جواب سن کر ان کی جگہ کسی اور کو گورنر و والی متعین کردیا۔ 

    دور نہ جائیے ماضی قریب کی ایک مثال ہے، جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا سراج الحسن صاحب مرحوم تین ٹرم مسلسل اس تحریک اور جماعت کے مرکزی امیر رہے اور انہوں نے اس تحریک کی اشاعت و ترقی اور اس کی خدمت میں اپنی زندگی کے بیش قیمت اوقات صرف کئے، تعلقہ و تحصیل ضلعی و صوبائی ور مرکزی سطح کی مختلف ذمہ داریوں کو سنبھالا، متعدد عہدے پر رہ کر اپنی خدمات پیش کی ، اخیر میں امیرجماعت اسلامی ہند کے عہدے پر فائز ہوئے، لیکن کبھی عہدے اور منصب کی خواہش اور چاہت پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی خود کو امید وار کی حیثیت سے پیش کیا، لیکن جماعت کے ارکان اور شوریٰ نے ان کو اس عہدہ کو قبول کرنے پر مجبور کیا تو اس عہدے کو قبول کیا، جب چوتھی  بار ان سے درخواست کی گئی کہ ایک ٹرم اور اس ذمہ داری کو قبول فرمائیں تو انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ کہ میری والدہ بوڑھی اور کمزور ہیں، اب   ان کی زندگی کا آخری وقت ہے، میں بس ان کی خدمت اپنی سعادت مندی سمجھوں گا اور جو علاقائی کام میرے ذمہ ہیں، کچھ اسکول اور کالج ہیں ان کی نگرانی کروں گا اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اپنا وقت صرف کروں گا،، انہوں بہت اصرار کے بعد بھی چوتھی مدت کے لیے امیر بننے سے انکار کردیا، اس تحریک اور جماعت سے علمی، فکری، نظریاتی اور فقہی اختلاف کی ہزار گنجائش ہے، لیکن اس جماعت میں عہدہ و منصب کے لیے کبھی کھینچا تانی اور لابنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے لیے سیاست، مخالفت اور ہنگامہ آرائی ہوتی ہے، دوسری تحریکوں ، تنظیموں اور جماعتوں و جمعیتوں کو اس کو نمونہ اور آیڈہل بنانا چاہیے۔

     اسلامی تاریخ کے روشن اور زریں صفحات میں اس طرح کے ہزاروں واقعات محفوظ ہیں، ہمارے اسلاف امانت و دیانت، زہد و تقوی اور خوف خدا کی دولت سے مالا مال تھے اور نیکی و پرہیز گاری کے اعلی مقام پر فائز تھے، اور آخرت کی باز پرس کے ڈر سے بڑے بڑے عہدوں کو ٹھکرا دیتے تھے، اگر انہیں یہ محسوس ہوجاتا تھا کہ حکمران وقت ان کی خدمت میں عہدہ و منصب پیش کریں گے تو وہ پہاڑوں اور غاروں میں چھپ جایا کرتے تھے۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کو عہدہ دے کر ان سے خلاف شرع فیصلہ کرنے پر انہیں مجبور نہ کردیا جائے۔

     لیکن آج کے زمانہ میں معیار بدل چکا ہے، لوگ عہدہ و منصب کے لیے جان تک دے دیتے ہیں، خون خرابہ کرتے ہیں، لابنگ کرتے ہیں، گروپ اور جھتہ بناتے ہیں، میڈیا کا سہارا لیتے ہیں، اپنے کو مستحق اور حق دار ثابت کرنے کے لیے عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں، اپنے لوگوں کو  فساد اور جھگڑے پر آمادہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی یہ جھگڑا اور نزاع  سب سے مقدس جگہ مسجد میں ہوتا ہے، ایک جماعت والے دوسری جماعت کے لوگوں کو مسجد میں کام کرنے نہیں دیتے، اس کو نکال بھگاتے ہیں اور نہ ماننے پر لاٹھی ڈنڈے کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ دنیا دار اور عوام تو عوام، طبقئہ خواص بھی عہدہ و منصب کے حصول کے لیے سیاست و مذہب کے نئے نئے روپ دھارتا ہے اور ہر راہ سے اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے، ہوس زر اور ہوس اقتدار دونوں انسانیت اور دین کے لیے زہر ہیں، اس لیے نبی کریم ﷺ نے اس کی تمثیل اس طرح بیان فرمائی ہے۔

دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں میں چھوڑ دئیے جائیں وہ ان بکریوں کو اس سے بڑھ کر تباہ نہیں کرتے ، جتنا مال اور عزت و جاہ کے لیے آدمی کی حرص اس کے دین کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے،، ۔ ترمذی / دارمی 

  حضور ﷺ نے دو بھوکے بھیڑیوں اور بکریوں کی مثال دے کر دین کی ہولناک تباہی کا احساس دلانے کے لیے پیش فرمائی ہے۔ بھوکے بھیڑیے بکریوں کو کب تک زندہ چھوڑ سکتے ہیں، ٹھیک اسی طرح مال اور حرص جاہ کی حیثیت دو خطرناک بھیڑیے کی ہے، یہ آدمی کے لیے انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں ۔ اس سے کہیں زیادہ تباہ کن جتنا دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے لیے غارت گر ہوتے ہیں۔ 

        اس تمثیل نبوی ﷺ سے عہدہ اور ہوس اقتدار کی زہرناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف عہدہ و منصب کے حصول سے ڈرتے تھے، اور اختلاف کی صورت میں عہدہ سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے تھے، چنانچہ آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے جھگڑوں کے دوران جب ذمہ داران دار العلوم نے حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کی بات نہیں سنی اور اندیشہ اختلاف کا ہوا تو آپ نے دار العلوم کی سرپرستی سے فورا استعفیٰ بھجوایا اور آپ اس کے لیے بھی آمادہ تھے کہ اگر مخالفین، خانقاہ تھانہ بھون خالی کرنے کے لیے کہیں گے تو میں خالی کردوں گا۔ 

   اس لیے اہل علم اور خواص امت کو چاہیے کہ وہ عہدہ و منصب کے حصول میں اختلاف سے مکمل اجتناب کریں کیونکہ یہ دور ذرائع ابلاغ اور میڈیا کا ہے، قدم قدم پر کیمرے کی آنکھیں، یا اخبار نویسوں کی متجسس نگاہیں آپ کو دیکھ رہی ہیں، ذرا سا کوئی پتہ ادھر ادھر کھڑکتا نہیں ادھر ان کو خبر ہوجاتی ہے، پھر آپ کے جھگڑوں کی خبریں عوام کو ضیافت طبع کے لیے پیش کردیا جاتی ہیں۔ جس سے خواص اور علماء کا وقار کم ہوتا ہے، اور لوگ مولویوں پر جملے کستے ہیں، انہیں عہدہ کا حریص اور لالچی دولت کا پجاری کہتے ہیں اور نہ جانے کیسے کیسے  طعنہ دیتے ہیں اور القاب دیتے ہیں۔ کیا اس کے لیے ہم خود ذمہ دار نہیں ہیں، کیا ہم نے دوسروں کو کہنے اور ہنسنے کا موقع نہیں دیا ہے؟ ہم سب اپنا محاسبہ کریں۔ 

   اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے امین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: